اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) معروف کالم نگار نسیم شاہ نے اپنے کالم میں لکھا کہ ملتان کے تینوں مخدوموں کی کہانیاں الگ الگ ہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی، مخدوم سید یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شاہ محمود قریشی کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ مشکل فیصلے بروقت کرنے کی قوت سے عاری ہیں۔ اب جاوید ہاشمی ہی کو دیکھیں، کتنا طویل سیاسی سفر ہے، لیکن آج ان کی سیاست کو بریک لگی ہوئی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے جب انہیں اپنے حق کے لئے آواز اٹھانی چاہیے تھی اس وقت خاموش رہے، زبان نہیں کھولی اور جب انہیں سیاسی مصلحت سے کام لینا چاہیے تھا اس وقت خم ٹھونک کے سامنے آ گئے، آج وہ اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ شریف خاندان کی سعودی عرب جلاوطنی کے دوران انہوںنے پارٹی کو زندہ رکھا۔ قید برداشت کی، مگر جب نواز شریف کی واپسی ہوئی تو چودھری نثار علی خان کو قائد حزب اختلاف بنا دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت ہاشمی صاحب کیوں چپ رہے۔ کیوں مصلحت کا راستہ اختیار کیا۔ اگر اس وقت یہ برداشت کر لیا تھا تو پھر آگے چل کر مسلم لیگ (ن) کو خیر باد کہہ کے تحریک انصاف میں شمولیت کیوں اختیار کی، پھر تو انہیں ہر صورت پارٹی کے ساتھ کھڑے رہنا چاہیے تھا۔ پھر اسی پر بس نہیں کیا۔ جب تحریک انصاف اپنی تحریک کے عروج پر تھی تو چلتی گاڑی سے جمپ لگا کر اتر گئے۔ یہ فیصلہ کتنا احمقانہ تھا اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی ہکا بگا رہ گئی اور انہوں نے ہاشمی صاحب کو پارٹی میں لینے سے انکار کئے رکھا۔ یہ صورتِ حال آج تک برقرار ہے کہ جاوید ہاشمی کی فی الوقت سیاسی حیثیت واضح نہیں۔وہ خود کو مسلم لیگ (ن) کا حصہ قرار دیتے ہیں، تاہم واقعہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے باضابطہ طور پر ان کی شمولیت کا اعلان اب تک نہیں کیا گیا۔
انہوں نے چند روز پہلے جو پریس کانفرنس کی وہ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر اس لئے نمایاں نہ ہو سکی کہ اس میں انہوں نے قومی اداروں پر دھاوا بولنے کی ساری حدیں پار کیں۔ حیرت ہے کہ جس بیانیے کو خود نوازشریف چھوڑ چکے ہیں، جاوید ہاشمی اسے مزید مرچ مصالحے کے ساتھ بیان کر رہے ہیں۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے
ان کا سیاسی قد کاٹھ بڑھے گا۔ ایسی باتیں تو نہال ہاشمی بھی کرتے ہیں، کیا جاوید ہاشمی جیسے ایک سینئر اور منجھے ہوئے سیاستدان کو یہ بیانیہ اختیار کرنا چاہیے۔ جاوید ہاشمی کو تو اس بات پر فخر کرنا چاہیے کہ ان کے دامن پر بدعنوانی کا کوئی داغ نہیں، وہ اس گئے گزرے زمانے میں بھی ایک شفاف سیاستدان کہلاتے ہیں۔ ان کا بار
بار یہ کہنا کہ ہاں میں ججوں اور جرنیلوں کے خلاف آواز اٹھاؤں گا، کسی نے مجھے تختہ دار پر چڑھانا ہے تو چڑھا دے، ان کے سیاسی تدبر، قد کاٹھ اور سنیارٹی سے لگا نہیں کھاتا۔سید یوسف رضا گیلانی بھی ملتان کے سیاسی مخدوم ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ان کی سیاسی سوجھ بوجھ دونوں مخدوموں سے بہتر ہے۔ خاص طور پر اس
حوالے سے کہ وہ تنازعات میں نہیں پڑتے۔ فوج یا عدلیہ کے خلاف ان کا بیانیہ کبھی بھی معاوندانہ نہیں رہا۔ حتیٰ کہ جب انہیں سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا، تب بھی وہ خاموشی سے وزارتِ عظمیٰ چھوڑ کر ملتان چلے آئے۔ البتہ وہ اپنی ایک کمزوری پر قابو نہ پا سکے۔ جب وہ وزیر تھے، اس کے بعد بھی ان پر بدعنوانی کے الزامات لگے اور
وزیراعظم بن کر بھی انہوں نے ایسے فیصلے کئے جو ان کے آج بھی گلے پڑے ہوئے ہیں۔ ملتان والے تو انہیں اس لئے اپنا محسن سمجھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ملتان کو میگا پراجیکٹس ملے اور فلائی اوورز بنے۔ ایک موقع آیا تھا کہ وہ بی کیٹیگری کے سیاستدان بن سکتے تھے۔ خاص طور پر تاریخ میں اپنا نام لکھوانے کے لئے ان کے پاس
ایک اچھا موقع تھا، مگر وہ آصف علی زرداری کے اثر سے نہ نکل سکے۔ اب کچھ لوگ اس بات کو ان کا کریڈٹ قرار دیتے ہیں کہ انہوں نے وزارتِ عظمیٰ چھوڑنا گوارا کیا، آصف علی زرداری کے سوئس اکاؤنٹس کے بارے میں خط نہیں لکھا۔ یہ بات کریڈٹ کیسے بن سکتی ہے وہ وزیراعظم تھے اور انہیں ملک کے بارے میں سوچنا
چاہیے تھا۔ ایک شخص سے وفاداری تو وزیراعظم کا قد نہیں بڑھاتی۔ اس صورت میں بھی زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری ان سے وزارتِ عظمیٰ واپس لے لیتے، لیکن ایک طرف تاریخ میں ان کا نام عدالت کا حکم ماننے والوں میں لکھا جاتا اور دوسری طرف ان کے سیاسی کیرئیر پر نااہلی کا داغ بھی نہ لگتا۔ لوگ محمد خان
جونیجو کو آج بھی ایک اصول پسند سیاستدان کے طور پر یاد رکھتے ہیں، کیونکہ انہوں نے مصلحت سے کام نہیں لیا تھا۔جہاں تک آج کے مقتدر مخدوم شاہ محمود قریشی کا تعلق ہے تو ان کا دکھ ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔ وہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا خواب سجائے الیکشن میں گئے تھے، مگر ان میں اتنی بصیرت بھی نہیں تھی کہ اپنے حلقے میں
عوام کے موؔڈ کا ہی اندازہ لگا سکیں، انہوں نے سلمان نعیم کو خود کپتان سے متعارف کرایا، کروڑوں روپے پارٹی فنڈ میں دلوائے، اپنے بیٹے کی تقریب شادی کو اس کے ذمے ڈالا، مگر اچانک یوٹرن لیتے ہوئے اسی صوبائی حلقے سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا، جہاں سلمان نعیم عرصے سے مہم چلائے ہوئے تھے اور خود شاہ محمود قریشی
اس کے ہمراہ جاتے تھے۔ پھر جو کچھ ہوا سب نے دیکھا، صوبائی اسمبلی کی نشست ہار کر مخدوم صاحب کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔ پھر بھی یہ تاثر دیتے رہے کہ پنجاب کا عارضی وزیراعلیٰ بنایا جائے گا، تین ماہ بعد الیکشن جیت کر میں وزیراعلیٰ بنوں گا۔ سلمان نعیم کو الیکشن ٹربیونل سے نااہل کرایا تو پھر ان کے اشارے پر
حامیوں نے وزیراعلیٰ شاہ محمود کے نعرے لگائے، مگر ہائیکورٹ نے سلمان نعیم کی اپیل منظور کر لی تو پھر جھاگ بیٹھ گئی۔اس سارے عمل میں اس بات پر بھی خوش ہوئے کہ جہانگیر ترین نااہل ہو گئے ہیں، اب پارٹی ان کے ہاتھوں میں ہے، جبکہ جہانگیر ترین تو سلمان نعیم کو ہی شاہ محمود قریشی کے لئے کافی سمجھتے ہیں۔ سو اب
حالت یہ ہے کہ ملتان میں سلمان نعیم کا ڈنکا زیادہ بج رہا ہے اور مخدوم صاحب اس کے برابر آنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ کیا اسے سیاست کا عروج کہا جا سکتا ہے؟ یا وہ زوال ہے جس کو خود مخدوم شاہ محمود قریشی نے دعوت دی ہے۔ اب انہوں نے ملتانی مخدوم سید یوسف رضا گیلانی کو اپنا ہدف بنا لیا ہے، جبکہ
پیپلزپارٹی کے جیالے ان کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کر رہے ہیں جس میں وہ اپنے حلقے میں کیچڑ سے پاؤں بچاتے گزر رہے ہیں۔ ساتھ ہی کیپشن میں یہ لکھا ہے کہ جو شخص اپنے حلقے میں سیوریج کے مسائل حل نہیں کر سکا، وہ سید یوسف رضا گیلانی سے مقابلہ کرنے چلا ہے، جنہوں نے ملتان کو انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور بڑے بڑے میگا پراجیکٹس دیئے۔