لاہور( این این آئی)سی پی ڈی آئی کی جانب سے پاکستان میں بجٹ شفافیت کی صورتحال پر مبنی دوسری سالانہ رپورٹ جاری کر دی گئی، رپورٹ میں وفاقی اور صوبائی سطح پربجٹ سازی کے عمل میں پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ بجٹ تجاویز کو وسیع پیمانے پر شہری گروپوں، سرکاری اداروں اور اہم شراکت داروں کیساتھ زیربحث لایا جائے
،بجٹ اخراجات سے متعلق سہ ماہی،ششماہی یا سالانہ رپورٹس کے باقاعدہ اجرا ء سمیت سالانہ آڈٹ رپورٹس آڈیٹر جنرل کی ویب سائٹس پر اپ لوڈ کی جائیں، بجٹ سازی کے عمل میں اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت کو قانونی تحفظ دیا جائے اور سرکاری اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ بجٹ سازی کے مختلف مراحل کے دوران مختلف طبقات سے مشاورت کریں خصوصا بجٹ سازی اور اس پر عملدرآمد کے دوران ممبران اسمبلی کے کردار کو بڑھایا جائے۔سٹیزن نیٹ ورک فار بجٹ اکائونٹبیلٹی کی ممبر تنظیم فا ونڈیشن فار اوئیرنیس اینڈ سوک انگیجمنٹ(فیس ) کے زیر اہتمام میڈیا بریفنگ کا اہتمام کیا گیا ۔ڈسٹرکٹ کوارڈی نیٹر فیس احتشام چشتی نے بتایا کہ گزشتہ ایک دہائی سے سی پی ڈی آئی پاکستان میں ضلعی سطح سے وفاقی سطح تک بجٹ سازی کے عمل کو بہتر بنانے اور اس میں شفافیت کے فروغ کیلئے کوشاں رہی ہے،رواں سال بھی وفاقی اورصوبائی سطح پر اس عمل کا جائزہ لیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں پاکستان میں بجٹ شفافیت کی صورتحال2021پر مبنی رپورٹ جاری کردی گئی ہے۔اس رپورٹ میں نہ صرف پاکستان میں بجٹ شفافیت کو جانچا گیا ہے بلکہ اس سے یہ اندازہ لگانے میں بھی مد دملی ہے کہ پاکستان میں معلومات تک رسائی کے قوانین بجٹ سے متعلق معلومات کے حصول میں کس حد تک موثر ہیں۔ یہ رپورٹ دو حصوں پر مشتمل ہے پہلا حصہ مختلف وفاقی وزارتوں اور صوبائی محکموں کو معلومات کے حصول کے لئے ارسال کردہ درخواستوں سے متعلق ہے جن میں بجٹ سازی کے عمل کے دوران مختلف مراحل کے بارے میں معلومات طلب کی گئیں۔بجٹ سازی کے عمل میں شفافیت کو جانچنے کیلئے منتخب وفاقی وزارتوں اور صوبائی محکموں کو معلومات کے حصول کی 152درخواستیں بھجوائی گئیں جن میں وفاق کو 38،بلوچستان کو28،خیبر پختونخواہ کو29،پنجاب کو28 اور سندھ کو29 درخواستیں ارسال کی گئیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان تمام درخواستوں میں سے کسی ایک کا جواب بھی مقررہ وقت کے دوران موصول نہیں ہوا جو کہ انتہائی مایوس کن ہے۔رپورٹ کے دوسرے حصہ میں بجٹ دستاویزات کی جامعیت اور بجٹ سازی میں شہریوں کی شرکت کا جائزہ لیا گیا ہے۔یہاں وفاقی حکومت کل87 پوائنٹس میں سے 62 پوائنٹس کے ساتھ سرفہرست،خیبر پختونخواہ دوسرے، پنجاب تیسرے جبکہ سندھ اوبلوچستان بالترتیب چوتھی اورپانچویں پوزیشن پر رہے
یاد رہے کہ اس حصہ میں وفاقی حکومت نے سابقہ سال کی نسبت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جبکہ بلوچستان کا سکور پچھلے سال کی نسبت 5پوائنٹس کم ہو کر48رہ گیا۔انہوں نے مزید بتایا کہ رپورٹ کے مطابق بجٹ سازی میں شہریوں کی شمولیت،مقننہ کی نگرانی،پارلیمنٹ میں بحث کا دورانیہ اورمساوی بجٹ سمیت دیگر اہم ترین اقدامات توجہ طلب ہیں اور اس سلسلہ میں حکومت کو
فوری اور دوررس اقدامات کرنا ہوں گے۔علاوہ ازیں کسی بھی حکومت کی جانب سے سہ ماہی،ششماہی یا سالانہ رپورٹس کے اجرا کا کوئی طریقہ کار رائج نہیں ہے جبکہ آڈٹ رپورٹس بھی آڈیٹر جنرل کی ویب سائٹس پر باقاعدگی سے اپ لوڈ نہیں کی جاتیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حکومتیں نظر ثانی شدہ تخمینہ جات کے اعدادوشمار بروقت فرام نہیں کرتیں بلکہ بجٹ کی منظوری کے دوران ہی پیش کردئیے جاتے ہیں۔