اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ جس ملک میں اخلاقیات تباہ ہوتی ہیں وہاں کرپشن کا ناسور نکل آتا ہے،ایک معاشرہ جس کے اندر اخلاقیات نہیں ہوتی وہ انصاف بھی نہیں کرسکتا، وہ پھر این آر او دیتا ہے اور چوروں سے ڈیل کرتا ہے،اگر آپ طاقت ور کو اوپر رکھ رہے ہیں تو آپ انصاف نہیں کر سکتے ہیں،
وزیر اعظم اور وزیروں سے برائی شروع ہوتی ہے اور نیچے چلی جاتی ہے،انسان کا امتحان اس وقت ہوتا ہے جب اس کو آزمایا جاتا ہے، اچھے وقت میں کوئی بھی اچھا ہوتا ہے،60 کی دہائی میں پاکستان کی بیوروکریسی سارے ایشیا میں نمبر ون سمجھی جاتی تھی، اس کا بڑا معیار اور عظمت تھی اور پھر آہستہ آہستہ ہم دوسرے راستے پر چلے گئے جو ہماری تباہی کا راستہ ہے۔سول سورسز اکیڈمی کی انعامات تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کرپشن اخلاقی تباہی کی نشانی ہے، جس طرح کینسر کی وجہ ایک پھوڑا نکلتا ہے اسی جب ایک قوم میں جب اخلاقیات ختم ہوتی ہے تو کرپشن نکل آتی ہے۔شرکا کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ یہ آپ کی ابھی شروعات ہیں، اصل امتحان اب ہوگا، انسان کا امتحان اس وقت ہوتا ہے جب اس کو آزمایا جاتا ہے، اچھے وقت میں کوئی بھی اچھا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ آزمائش میں پتہ چلتا ہے کہ آپ کا ایمان کتنا مضبوط ہے تو آپ کی آزمائش ابھی شروع ہوئی ہے، آپ کا مستقبل آپ کا منتظر ہے کہ آپ کہاں جاتے ہیں اور کتنے بڑے انسان بنتے ہیں اور کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بڑا انسان وہ ہوتا ہے جس کے خواب بڑے ہوں اور بڑے خواب دیکھتا ہے، جو آئیڈلسٹ ہوتا ہے، کبھی رئیلسٹ بڑا انسان نہیں بنا، جس آدمی نے سب سے پہلے ماؤنٹ ایورسٹ سر کیا اگر وہ رئیلسٹ ہوتا تو کبھی سر نہیں کرتا
کیونکہ اس سے پہلے جس نے بھی کوشش کی تھی یاتو وہ مرگئے تھے یا ناکام ہوئے تھے، رئیلزم تو کہتی تھی یہ نہیں چڑھ سکتا لیکن آئیڈلزم کہتی تھی سر کرنے کیلئے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ درحقیقت آپ کو ایمان دیتا ہے، سب سے بڑی قوت ایمان کی ہوتی ہے، ایمان انسان کی اپنی تمام حدوں کو ختم کردیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ راستے
میں ہمیشہ مواقع ملیں گے اور دو چوائسز ملیں گی، ایک راستہ وہ ہے جو لگتا بڑا مشکل ہے لیکن وہ راستہ جہاں نعمتیں ملتی ہیں، دوسرا راستہ جو شارٹ کٹ ہے اور دنیا بھی یہ کرتی ہے تو ہم بھی کرلیں، ہروقت احساس ہوگا کہ آپ زمینی حقائق نہیں جانتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ ہمیشہ دو راستوں پر فیصلہ کرنا ہوگا کیونکہ ایک آپ کی عظمت کا
راستہ ہے اور دوسرا راستہ جولگتا بڑا پرکشش ہے نہیں انسان کی تباہی کا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے ملک کو عظیم بننا تھا اور ہمارے دور میں عظیم بن رہا تھا، 60 کی دہائی میں پاکستان کی بیوروکریسی سارے ایشیا میں نمبر ون سمجھی جاتی تھی، اس کا بڑا معیار اور عظمت تھی اور پھر آہستہ آہستہ ہم دوسرے راستے پر چلے گئے جو
ہماری تباہی کا راستہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ یاد رکھیں معاشی گراوٹ پہلے نہیں آتی بلکہ پہلے اخلاقیات گرتی ہے پھر آپ کی معاشی گراوٹ آتی ہے، جب آپ کی اخلاقیات تباہ ہوتی ہے تو اس کے بعد معیشت تباہی کی طرف جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں سارے غریب ملکوں میں کرپشن منفرد ہوگی کیونکہ ان کی اخلاقی اقدار گرجاتی ہیں،
سارے امیر ملکوں میں ایک چیز کامن ہوگی کہ ان کے پاس اخلاقی قوت ہوگی انصاف دینے کے لیے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک معاشرہ جس کے اندر اخلاقیات نہیں ہوتی وہ انصاف بھی نہیں کرسکتا، وہ پھر این آر او دیتا ہے اور چوروں سے ڈیل کرتا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ نبی اکرمؐ کی ایک حدیث ہے کہ تمھارے سے پہلے بڑی قومیں تباہ ہوئیں
جہاں طاقت ور کے لیے ایک قانون اور کمزور کے لیے دوسرا تھا، اس کا مطلب ہے جو قوم انصاف نہیں کرسکتی، اگر آپ طاقت ور کو اوپر رکھ رہے ہیں تو آپ انصاف نہیں کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہاکہ ہمارے ملک میں آہستہ آہستہ اخلاقیات گریں اور اخلاقیات کے ساتھ ہماری معیشت نیچے گئی۔انہوں نے کہا کہ 80 کی دہائی میں جب
بھارت سے کرکٹ کھیل کر واپس آتا تھا تو ایسا لگتا تھا کہ غریب ترین ملک سے امیر ترین ملک میں آگیا ہوں، آہستہ آہستہ وہ بھی ہم سے آگینکل گیا، بنگلہ دیش جب مشرقی پاکستان تھا تو سمجھا جاتا تھا کہ وہ بوجھ بنا ہوا ہے وہ ہمارے سے آگے نکل گیا۔انہوںنے کہاکہ جیسے جیسے ہمارے ملک میں چوری اور کرپشن کو برا نہیں سمجھنا
شروع کیا، تباہی ایلیٹ سے ہوتی ہے، جب ایلیٹ کی اخلاقیات جاتی ہے تو پورے ملک کی اخلاقیات جاتی ہے، اوپر سے وزیراعظم سے شروع ہوتا ہے اور نیچے اس کے وزیروں تک چلی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کبھی ایک انسان جو حق پر کھڑا ہوا ہو اس کی طاقت کو نظرانداز نہ کریں، جب آپ سچ پر کھڑے ہوتے ہیں تو آپ کے پاس اللہ کی
قوت آجاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں جب کرکٹ کھیلتا تھا تو آسٹریلیا میں کیری پیکر سیریز تھی جس میں بڑا پیسہ تھا لیکن آج کے مقابلے میں بہت کم تھا، وہاں ورلڈ الیون ایک ٹیم بنی تھی جس میں ہم شامل تھے اور وہ آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز سے جیت گئی۔انہوں نے کہا کہ جب ہم میچ جیت گئے تو 11 کھلاڑیوں نے کہا کہ انعام کے پیسے پورے
اسکواڈ کے بجائے ہم نے کھیلا ہے تو یہ 11 کھلاڑیوں میں آپس میں تقسیم ہونے چاہیے اور سب نے باری باری یہی کہا لیکن انگلینڈ کے ایک کھلاڑی ایلن ناٹ نے کہا سب کو شرم آنی چاہیے وہ اسکواڈ کا حصہ ہیں اگر وہ نہ کھیلیں تو بھی ان میں تقسیم کرنا چاہیے اور وہ کٹر عیسائی تھا لیکن وہ سچ بول رہا تھا اور دیگر سب کو شرم آئی۔