کراچی (آن لائن)سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کے منیجنگ ڈائریکٹر عمران منیار نے کہا ہے کہ جب تک کہ بندرگاہ پر آر ایل این جی کے نئے ٹرمینلز نہیں لگ جاتے، موسم سرما میں گیس بحران مزید ایک سے دو سال تک جاری رہنے کا امکان ہے۔ ہمارے سامنے مشکلات اور چیلنجز بہت ہیں لیکن ہم پُرامید ہیں کیونکہ پورٹ پر تیسرے ٹرمینل کی تکمیل اور آپریشنز کے
آغاز ہوجانے پر اگر ایس ایس جی سی ٹرمینل کے مالک سے معائدہ کرنے کافیصلہ کرتی ہے جو صرف اسی صورت میں ہوگا جب صارفین اضافی 500ایم ایم سی ایف لینے کا عہد کریںگے توکراچی کے تمام صارفین کو درپیش گیس قلت کا مسئلہ حل کرنے میں مدد ملے گی۔یہ بات انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اجلاس میں چیئرمین بزنس مین گروپ (بی ایم جی) و سابق صدر کے سی سی آئی زبیر موتی والا، وائس چیئرمین بی ایم جی جاوید بلوانی، صدر کے سی سی آئی شارق وہرہ، سینئر نائب صدر ثاقب گڈ لک، نائب صدر شمس الاسلام خان، سابق صدور کے سی سی آئی مجید عزیز، یونس بشیر، سابق نائب صدر محمد ادریس، چیئرمین پبلک سیکٹر یوٹیلیٹیز سب کمیٹی عاطف جمیل الرحمان اور منیجنگ کمیٹی کے ارکان کے علاوہ صنعتی ٹاؤن ایسوسی ایشنز کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ ایم ڈی ایس ایس جی سی نے گیس کی طلب و رسد کی مجموعی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ملک بھر میں مجموعی طور پر 4 ہزار ایم ایم سی ایف گیس بشمول قدرتی گیس اور آر ایل این جی استعمال کی جا رہی ہے جس میں سے تقریباً 950 ایم ایم سی ایف سندھ اور بلوچستان کے مقامی وسائل سے ایس ایس جی سی کو فراہم کی جا رہی ہے جبکہ 150 ایم ایم سی ایف آر ایل این جی بھی انہیں دی جا رہی ہے
اور باقی تمام گیس ایس این جی پی ایل استعمال کر رہی ہے۔ ایس ایس جی سی بلوچستان میں قدرتی وسائل سے 110 ایم ایم سی ایف لیتا ہے جبکہ باقی 75 فیصد گیس سندھ کے وسائل سے سسٹم میں آتی ہے لیکن گیس کے یہ ذخائر 10 فیصد سالانہ کی شرح سے تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔عمران منیار نے کہا کہ ایس ایس جی سی پورٹ قاسم کے دو
ٹرمینلز سے تقریباً 150 سے 180 ایم ایم سی ایف آر ایل این جی لیتا ہے لیکن موسم سرما کے دوران ان ٹرمینلز سے سپلائی 70 یا 80 ایم ایم سی ایف تک محدود ہو جاتی ہے اور بلوچستان میں گیس کی مانگ 120 ایم ایم سی ایف تک بڑھ جاتی ہے جو تقریباً 195 ایم ایم سی ایف گیس کی مجموعی قلت پیدا کرتا ہے۔گیس کی قلت سے نمٹنے کے
لیے وزارت نے ایک ایسا طریقہ کار وضع کیا ہے جس میں گھریلو سے صنعتی تمام صارفین کو اوپر سے نیچے تک درجہ بندی کی گئی ہے جس میں گھریلو صارفین سرفہرست ہیں اس کے بعد برآمدی صنعتیں ہیں جبکہ سی این جی اسٹیشنز فہرست میں سب سے نیچے ہیںاور غیربرآمدی برآمدی صنعتیں سی این جی اسٹیشنز سے اوپر ہیں لہٰذا
ایس ایس جی سی موسم سرما میں لوڈ مینجمنٹ پر وزارت کی فراہم کردہ فہرست کے مطابق عمل کرتا ہے جبکہ سردیوں میں کے الیکٹرک کو آر ایل این جی کی سپلائی مکمل طور پر صفر کردی جاتی ہے جو گیس کی قلت کو 75 سے 80 ایم ایم سی ایف تک پورا کرنے میں مدد دیتی ہے نیز سی این جی اسٹیشنز کو گیس کی معطلی سے مزید
20 ایم ایم سی ایف کی بچت ہوتی ہے جو کہ 195 ایم ایم سی ایف کی مجموعی قلت میں سے 95 ایم ایم سی ایف گیس کی کمی کو کم کرنے کا باعث بنتی ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ دیہاتوں کو گیس دینے کے لیے زبردست دباؤ ہے جس میں اربوں روپے کی خطیر سرمایہ کاری ، افرادی قوت اور آلات سمیت بھاری وسائل کی ضرورت ہے
جنہیںدور دراز علاقوں اور دیہاتوں میں بھیجنا ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ انڈسٹری گھریلو صارفین کو استعمال ہونے والی گیس کا 70 سے 80 فیصد ادا کر رہی ہے کیونکہ گھریلو صارفین کے لیے گیس ٹیرف قطر اور ایران سمیت دنیا بھر کے کسی بھی دوسرے صارفین کے مقابلے میں بہت کم ہے کیونکہ یہ انڈسٹری کی جانب سے سبسیڈائز ہورہا ہے۔