ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

امریکہ کے ساتھ ہمارا رشتہ صرف ایک فون کال پر مبنی نہیں، وزیراعظم عمران خان

datetime 15  ستمبر‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکا نے دہشت گردی سے لڑنے کیلئے افغانستان پر حملہ کیا تھا تاہم غیرمستحکم افغانستان کے نتیجے میں وہاں سے پھر دہشت گردی کا خطرہ جن لے گا،افغانستان کی صورتحال پریشان کن اور اس وقت ایک تاریخی موڑ پر ہے،طالبان تمام دھڑوں کو ملاتے ہیں تو افغانستان میں 40سال بعد امن ہو سکتا ہے،

یہ عمل ناکامی سے دوچار ہوا تو افرا تفری مچے گی سب سے بڑا انسانی بحران پیدا ہو گا،افغانستان کو باہر سے بیٹھ کر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا،ہمیں افغانستان کی مدد کر نی چاہیے،فغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد سے امریکی صدر سے بات نہیں ہوئی، جو بائیڈن مصروف آدمی ہیں،امریکا کے ساتھ ہمارا رشتہ صرف ایک فون کال پر مبنی نہیں۔امریکی نشریاتی ادارے ”سی این این“سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہاکہ افغانستان کی صورتحال پریشان کن اور وہ اس وقت ایک تاریخی موڑ پر ہے، اگر وہاں 40سال بعد امن قائم ہوتا ہے اور طالبان پورے افغانستان پر کنٹرول کے بعد ایک جامع حکومت کے قیام کیلئے کام کرتے ہیں اور تمام دھڑوں کو ملاتے ہیں تو افغانستان میں 40سال بعد امن ہو سکتا ہے۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یہ عمل ناکامی سے دوچار ہوتا ہے جس کے بارے میں ہمیں بہت زیادہ خدشات بھی لاحق ہیں، تو اس سے افرا تفری مچے گی سب سے بڑا انسانی بحران پیدا ہو گا، مہاجرین کا مسئلہ ہو گا، افغانستان غیرمستحکم ہو گا۔انہوں نے کہاکہ امریکا کے افغانستان میں آنے کا مقصد دہشت گردی اور عالمی دہشت گردوں سے لڑنا تھا لہٰذا غیرمستحکم افغانستان، مہاجرین کا بحران کے نتیجے میں افغانستان سے پھر دہشت گردی کا خطرہ جنم لے سکتا ہے۔عمران خان نے کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی یہ پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ یہاں سے افغانستان کی صورتحال کیا نکلے گی،

ہم صرف امید اور دعا کر سکتے ہیں کہ وہاں 40سال بعد امن قائم ہو، طالبان نے کہا کہ وہ ایک جامع حکومت چاہتے ہیں، وہ اپنے خیالات کے مطابق خواتین کو حقوق دینا چاہتے ہیں، وہ انسانی حقوق کی فراہمی چاہتے ہیں، انہوں نے عام معافی کا اعلان کیا ہے تو یہ سب چیزیں اس بات کا عندیہ دیتی ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ عالمی برادری

انہیں تسلیم کرے۔انہوں نے کہاکہ افغانستان کو باہر سے بیٹھ کر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، ان کی ایک تاریخ ہے، افغانستان میں کسی بھی کٹھ پتلی حکومت کو عوام نے سپورٹ نہیں کیا لہٰذا یہاں بیٹھ کر یہ سوچنا کہ ہم انہیں کنٹرول کر سکتے ہیں، اس کے بجائے ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ افغانستان کی موجودہ حکومت یہ محسوس کرتی

ہے کہ عالمی معاونت اور امداد کے بغیر وہ اس بحران کو نہیں روک سکیں گے۔طالبان کی جانب سے افغان خواتین کو حقوق فراہم نہ کرنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ ایک غلط تاثر ہے کہ باہر سے آ کر کوئی فرد افغان خواتین کو ان کے حقوق دے گا، افغان خواتین مضبوط ہیں، انہیں وقت دیں، وہ خود اپنے حقوق حاصل کریں گی۔انہوں نے

کہا کہ نائن الیون کے بعد امریکا کا اتحادی بننے کی وجہ سے پاکستان نے بہت کچھ بھگتا ہے، ایک وقت تھا کہ 50 شدت پسند گروپ پاکستان پر حملہ کررہے تھے، 80 کی دہائی میں پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف امریکا کا ساتھ دیا، ہم نے مجاہدین کو تربیت دی تاکہ وہ افغانستان میں جہاد کر سکیں ان میں مجاہدین میں القاعدہ اور طالبان

شامل تھے اور اس وقت یہ ایک مقدس کام تصور کیا جاتا تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ نائن الیون کے بعد امریکا کو افغانستان میں ہماری ضرورت تھی، جیارج بش نے پاکستان سے مدد طلب کی اور اس وقت کہا تھا کہ ہم پاکستان کو دوبارہ تنہا نہیں چھوڑیں گے، پاکستان امریکا کی جنگ کا حصہ بن گیا، اگر میں وزیر اعظم ہوتا تو میں کبھی ایسا نہ

کرتا۔انہوں نے کہاکہ پہلے وہ مجاہدین تھے لیکن بعد میں ہم انہیں کہہ رہے تھے کہ کیونکہ امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا ہے تو اب آپ کے کام دہشت گردی ہیں، وہ ہمارے مخالف ہو گئے اور پاکستان کے تمام قبائل اور پشتون آبادی بھی طالبان کے حق میں ہو گئے اور اس کی وجہ مذہب نہیں بلکہ یہ تھی کہ وہ بھی پشتون تھے۔انہوں نے کہا

کہ امریکا کا ساتھ دینے کے نتیجے میں جہادی ہمارے خلاف ہو گئے، پشتون ہمارے خلاف کھڑے ہو گئے اور ہم نے شہری علاقوں میں جتنے زیادہ فوجی آپریشنز کیے تو اس کے اتنے ہی زیادہ نقصانات ہوئے اور ایک وقت میں 50 شدت پسند گروپ پاکستان پر حملہ آور تھے۔ عمران خان نے کہا کہ ان گروپس کے حملوں کے ساتھ ساتھ پاکستان

میں 480 امریکی ڈرون حملے ہوئے اور یہ پہلا موقع تھا کہ کسی جنگ میں کسی ملک پر اس کے اپنے ہی اتحادی نے حملہ کیا ہو۔دوران پروگرام وزیراعظم کو امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کی افغانستان میں صورتحال کے حوالے سے گفتگو بھی سنائی گئی جس میں انہوں نے صورتحال کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیتے ہوئے حقانی نیٹ ورک سمیت دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔اس پر وزیر اعظم نے کہا

کہ میں نے ان کو سنا اور کسی بھی اس طرح نظرانداز کرتے نہیں دیکھا، انہیں کچھ پتا ہی نہیں ہے کہ افغانستان میں ہوا کیا ہے، وہ سب سکتے کی حالت میں ہیں، ریاست پاکستان دراصل امریکا کا ساتھ دینے کی وجہ سے حملوں کی زد میں تھی۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے پاس ایک نئی جنگ لڑنے کیلئے سرمایہ نہیں تھا، امریکی حکام افغانستان سے متعلق حقائق سے لاعلم ہیں، امریکیوں کو حقانی نیٹ ورک سے متعلق معلومات نہیں، حقانی خاندان افغانستان میں رہائش پذیر ہے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…