بھارت کے وسطی شہر بھوپال میں یونین کاربائیڈ کے پلانٹ کے حادثے کی 30 ویں سالگرہ پر دہلی میں مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔بھوپال گیس سانحے کو 30 برس گزر چکے ہیں لیکن نہ ابھی اْس خوفناک رات کی یاد دھندلی ہوئی ہے اور نہ ہی یونین کاربائیڈ کی فیکٹری سے نکلنے والی گیس کی زد میں آنے والوں کے زخم بھرے ہیں۔بی بی سی کے مطابق دو اور تین دسمبر سنہ 1984 کی درمیانی شب اچانک کیڑے مارنے والی دوا کی اس فیکٹری سے زہریلی گیس نکلنا شروع ہوگئی تھی۔ رات کے تقریباً 12 بج رہے تھے، کڑا کے کی سردی تھی اور لوگ اپنے گھروں میں سوئے ہوئے تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ انتہائی زیریلی (میتھل آئسوسایانیٹ) گیس چاروں طرف پھیل گئی۔ بڑی تعداد میں لوگ نیند سے اٹھے ہی نہیں، جو اٹھ سکے ان کے پاس بھاگ کر جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔حکومت نے مرنے والوں کی تعداد چار سے پانچ ہزار کے درمیان تسلیم کی تھی، لیکن دوسرے ذرائع کے مطابق اصل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ تھی
سب سے زیادہ متاثر فیکٹری کے گرد و نواح میں کچی بسیتوں میں رہنے والے لوگ ہوئے۔ لیکن بھوپال شہر بھی محفوظ نہیں رہا۔ بڑی تعداد میں لوگ جس حال میں بھی تھے، جان بچانے کے لیے شہر چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔حکومت نے پہلے تقریباً چار ہزار اموات کا اعتراف کیا، لیکن دیگر آزاد ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پہلے 72 گھنٹوں میں ہی آٹھ سے دس ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ اس کے بعد زہریلی گیس کی زد میں آنے والی پیچیدگیوں نے تقریباً 25 ہزار لوگوں کی جان لی۔ بڑی تعداد میں لوگ آج بھی مختلف تکلیف دہ بیماریوں کا شکار ہیں۔اس حادثے کا شمار انسانی تاریخ کے بڑے سانحوں میں ہوتا ہے۔صحافی اور مصنف راج کمار ہ یسوانی نے اس حادثے کے رونما ہونے سے قبل ہی اس کی جانب اشارہ کیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ یہ فیکٹری کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔انھوں نے بی بی سی ہندی کے لیے اپنے ایک مضمون میں لکھا: ’سنہ 1981 کے کرسمس کے وقت کی بات ہے۔ میرا دوست محمد اشرف یونین کاربائیڈ فیکٹری میں پلانٹ آپریٹر تھا اور رات کی شفٹ میں کام کر رہا تھا۔ فاسج?ن تیار کرنے والی مشین سے متعلق دو پائپ کو جوڑنے والی خراب فلینج کو بدلنا تھا۔ جیسے ہی اس نے فلینج کو ہٹایا، جان لیوا فاسجن گیس کی زد میں آ گیا۔ اسے فوری طور ہسپتال لے جایا گیا پر اگلی صبح اشرف نے دم توڑ دیا۔‘
ان کے مطابق اس وقت فیکٹری میں جن کیمیکلوں کا استعمال شروع کیا گیا تھا، ان کے متعلق اشرف خوفزدہ اور پریشان تھا۔ یہاں تک کہ وہ نوکری چھوڑنے کے بارے میں بھی سوچنے لگا تھا۔
جو فیکٹری اس بڑے حادثے کا سبب بنی اس کا نام یونین کاربائیڈ انڈیا لمیٹڈ ( وس آئی ایل) تھا جو امریکی یونین کاربائیڈ کارپوریشن کی ذیلی کمپنی تھی۔اس میں فیکٹری کے آس پاس کی بستیاں سب سے زیادہ متاثر ہوئیں اس فیکٹری نے بھوپال میں سنہ 1969 سے صرف ایک فارمولیشن پلانٹ کے طور پر کام شروع کیا تھا۔ جبکہ سنہ 1977 میں اس نے کیڑے مار ادویات کی پیداوار شروع کر دی۔
اگلے مرحلے کے تحت سنہ 1980 میں بھوپال میں ایک پلانٹ لگایا گیا۔ یہ وہی پلانٹ تھا جس نے 1984 میں بھوپال کو ’سٹی آف دیتھ‘ (موت کا شہر) بنا دیا۔انھوں نے مزید بتایا کہ ’کاربائیڈ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں، سوائے اس کے کہ یہ ’سیون‘ اور ’ٹیم ‘ نامی ادویات تیار کرتا تھا: ’میں شہر کی تمام لائبریریوں اور بطور خاص برٹش لائبریری اور مقامی سائنس کالج سے علم کیمیا کی معلومات حاصل کرنے میں لگ گیا۔‘انھوں نے بتایا: ’اسی دوران پتہ چلا کہ دوسری عالمی جنگ میں اسی کیمیائی مادے کا استعمال کیا گیا تھا۔ ہٹلر کے گیس چیمبروں میں بھی اس کا استعمال ہوا تھا۔اس بات نے مجھے چونکا دیا۔ پھر بھی اس پلانٹ کے متعلق میں جیسے اندھیرے میں بھٹک رہا تھا۔ اس میں فاسج?ن کی مقدار کہیں زیادہ تھی اور یہ مرکب زیادہ مہلک ہو سکتا تھا۔‘انھوں نے بتایا کہ انھیں جو خدشہ تھا بالآخر وہی ہو کر رہا۔
بھوپال اور ہٹلر کے چیمبر کی گیس ایک ہونے کا انکشاف
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں