کابل ٗ برلن (این این آئی )افغانستان کے دارالحکومت کابل میں خواتین نے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے لیکن طالبان نے انھیں اچانک ہوائی فائرنگ کرکے منتشرکردیا ۔میڈیارپورٹس کے مطابق کابل میں خواتین نے طالبان کی نئی حکومت میں اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے پرامن طریقے سے مارچ کاآغاز کیا ۔انھوں نے وزارت دفاع کے باہر ان افغان فوجیوں کے اعزازمیں پھولوں کی چادر چڑھائی جو
گذشتہ مہینوں میں طالبان سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوگئے تھے۔اس کے بعد مارچ کی شرکا خواتین صدارتی محل کی جانب بڑھنے لگیں۔مظاہرے میں زیادہ نوجوان افغان خواتین اور جامعات کی طالبات شریک تھیں،جب صدارتی محل کے باہرخواتین نعرے بازی کرنے لگیں تو طالبان کے متعدد اہلکار ان کے پاس آگئے اور ان سے ان کے مطالبات کے بارے میں دریافت کرنے لگے۔مظاہرے میں شریک 24 سالہ طالبہ سودابہ کبیری نے انھیں بتایا کہ پیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو تمام حقوق دیے ہیں اور وہ اپنے یہی حقوق چاہتی ہیں۔جب مظاہرے میں شریک خواتین صدارتی محل پہنچیں تو طالبان کے درجن بھرخصوصی دستوں نے ہجوم میں گھس کرہوائی فائرنگ شروع کردی،اس پرخواتین نے ادھر ادھربھاگ شروع کردیا اور یوں مظاہرے کی شرکا خواتین منتشرہوگئیں۔دوسری جانب امریکہ کے چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی نے افغانستان کی صورتحال کے بارے میں کہاہے کہ میرے فوجی تخمینے کے مطابق جو حالات ہیں وہ خانہ جنگی کی طرف جا سکتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ طالبان اپنی طاقت کو مستحکم کر کے
گورننس قائم کر سکیں گے۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے جرمنی کی رمسٹیئن ایئر بیس پرامریکی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر طالبان اقتدار پر قبضے کو مستحکم کرنے میں ناکام رہے تو اگلے تین برس میں القاعدہ دوبارہ ابھر سکتی ہے یا داعش اور دیگر اس جیسے دہشت گرد گروپ پھیل سکتے ہیں۔امریکی جنرل کا یہ خدشہ افغانستان کی وادی پنج شیر میں طالبان اور مخالف اتحاد کی فورسز کے درمیان لڑائی میں شدت کے بعد دیکھنے میں آیا ہے اور دونوں گروپ ایک دوسرے پر برتری کے دعوے کر رہے۔