سلام آباد (آن لائن)سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کے دائرہ کار کے تعین سے متعلق معاملہ کی سماعت کے موقع پر فریقین کے دلائل مکمل ، عدالت عظمیٰ نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ کیس کی سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ دوران سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دئیے کہ بنچ نوٹس لے سکتا ہے،سوال یہ ہے کہ کیا عدالت میں درخواست وصول کی جاسکتی ہے،
کیا کوئی عدالتی بنچ حکمنامے میں یہ لکھ سکتا ہے کون سا مخصوص بنچ اس کیس کو سنے گا،نظام عدل میں چیف جسٹس سربراہ انتظامیہ بھی ہوتا ہے،ہم جوڈیشل اختیار کا مکمل احترام کرتے ہیں،جوڈیشل اختیار کی اپنی اپنی اہمیت ہے،وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں تبدیل ہوتی ہیں، آج ہم وڈیو لنک کے ذریعے کراچی اور لاہور کے وکلاء کو یہاں سے سنتے ہیں،ٹیکنالوجی کے آنے سے بہت سے معاملات بدل چکے ہیں،وقت کے ساتھ ساتھ 184(3) کے درخواست دائر کرنے کا طریقہ کار بھی بدل گیا ہے،184(3) کے تحت ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں درخواست دائر ہی نہیں ہوئی،اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ درخواست گزار نے درست طریقہ کار نہیں اپنایا۔جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ صحافی برادری کے ساتھ ہے،آزادی صحافت پر حملہ سپریم کورٹ پر حملہ ہے،سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کا ایک طریقہ کار ہے، درخواست دائر ہونے کے بعد رجسٹرار آفس جاتی ہے جہاں اس کا نمبر لگتا ہے پھر آگے کاروائی چلتی ہے، ماضی کی متنازعہ روایات موجود ہیں،کیا سائل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اس کا مقدمہ کس جج نے سننا ہے؟جسٹس منیب اختر نے ایک موقع پر ریمارکس دئیے کہ اگر صحافیوں کی طرف سے درخواست طے شدہ طریقہ کار کے تحت دائر کی جاتی تو معاملہ مختلف ہوتا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ہم بنیادی حقوق کے ضامن ہیں،
اگر صحافیوں پر کوئی ضرب آئی تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہونگے،یہاں بنیادی سوالات تین ہیں، آرٹیکل 184 کی شق تین کے اختیار کے استعمال کا طریقہ کار(پیرا میٹرز) کیا ہے،رٹیکل 184 کی شق تین کا استعمال کیسے ہو ،آرٹیکل 184 کی شق تین کا استعمال کون کر سکتا ہے،جوڈیشل کارروائی بعد میں ہوتی ہے، کسی درخواست پر جج
نوٹس تو لے سکتا ہے، اس کے بعد کیا کرنا ہے سوال یہ ہے،لکھے گئے خط یا اخباری خبر پر نوٹس لینے کی روایات موجود ہیں،جب کسی جج صاحب نے نوٹس لیا تو بنچ چیف جسٹس نے بنایا۔قبل ازیں دلائل دیتے ہو? وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل خوش دل خان نے موقف اپنایا کہ اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے معاملہ چیف جسٹس
کو نہیں بھیجا تو یہ کوئی بڑا ایشو نہیں ہے، رجسٹرار سپریم کورٹ کا نوٹ پڑھنا چاہتا ہوں،جہانگیر جدون وکیل عامر میر نے دلائل دئیے کہ 184(3) کا دائرہ اختیار ڈائریکٹ سپریم کورٹ نے استعمال کرنا ہوتا ہے، متعلقہ بینچ کو درخواست دی گئی اور اس نے آرڈر جاری کیا،184(3) کے تحت بھی درخواست دائر کرنے کا ایک طریقہ
موجود ہے۔اس موقع پر جسٹس قاضی امین نے وکیل جہانگیر جدون سے کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ آپ وہ سپاہی ہیں جو بغیر تیاری اور ہتھیار جنگ پر آ گئے ہیں،آپ درخواست کو دیکھیں اس میں ایک درخواست گزار عمران شفت کے دستخط 14 اگست کے ہیں جبکہ دوسرے کے 20 اگست کے ہیں،اس کا مطلب ہے کہ
درخواست 14 اگست کو تیار تھی اور دائر کرنے کے لیے کافی وقت موجود تھا،اس وقت چیف جسٹس بھی پاکستان میں موجود تھے۔وکیل پاکستان بار کونسل نے موقف اپنایا کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر عوامی مفاد کے تحت ازخود نوٹس کا استعمال کیا جا سکتا ہے، آئین میں ازخود نوٹس کے استعمال کیلئے سپریم کورٹ کا لفظ استعمال کیا
گیا ہے،سپریم کورٹ کا مطلب چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان ہے،صحافیوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے عدالت نے نوٹس لیا،اخباری خبروں پر نوٹس لینے کی روایات اور مثالیں بھی موجود ہیں،افسوس کی بات ہے پاکستانی معاشرے میں سچ بولنے پر سزا ملتی ہے،دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا، براہ راست درخواست پر ازخود
نوٹس لینے کی کوئی ممانعت نہیں ہے،عدالت نے کل وکیل صاحب کو دلائل کیلئے پورا دن دیا،میری درخواست ہے کہ مجھے بھی مکمل وقت دیں،میں وکلاء کا نمائندہ ہوں،میں بھی وکیل ہوں،صدر سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن امجد بھٹی نے بتایا کہ ہم نے صحافیوں کے حقوق سے متعلق سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی،سپریم کورٹ نے
آرٹیکل 184 کی شق تین کے دائرہ اختیار سے متعلق پانچ رکنی لارجربنچ تشکیل دیا،اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل کے وکیل دلائل دے چکے ہیں،پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ آرٹیکل 184 کی شق تین کے دائرہ اختیار سے متعلق رائے نہیں دینا چاہتی، ہمیں سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان پر مکمل اعتماد ہے،ہم نے جب بھی
انفرادی حیثیت سے درخواست دائر کی تمام قانونی تقاضے پورے کیے،ہمیں سنا جائے،جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک موقع پر صدرسپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں تو عارضی طور پر یہاں ہوں، سننا چیف جسٹس آف پاکستان نے ہے، جسٹس عمر عطا بندیال نیعامر میر کے وکیل جہانگیر جدون سے کہا آپ
کی درخواست اپنی جگہ پر موجود ہے،آپ کی درخواست کوئی ہاتھ بھی نہیں لگائے گا، جسٹس عمر عطاء بندیال نے لطیف آفریدی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی باتیں دل سے نکل رہی ہیں ہم انکی قدر کرتے ہیں، بیس اگست کا حکم بھی ہمارا ہی حکم تھا،عوامی مفاد کے تحت سپریم کورٹ کو نوٹس لینے کا اختیار ہے،صدر سپریم کورٹ بار
لطیف آفریدی نے کہا کہ میں چاہتا ہوں ججز میں اتفاق اور اتحاد برقرار رہے، یہ ادارے کے لیے بہتر ہے،اگر کسی قسم کی کوئی تقسیم ہے تو اس کا بھی تاثر نہیں ملنا چاہیے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہٹانے اور دباؤ میں لانے کے لیے مختلف حربے استعمال ہو رہے ہیں،ازخودنوٹس لینا سپریم کورٹ کا ہی اختیار ہے،ایسی کوئی مثال نہیں کہ
سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے دوسرے بینچ کے فیصلے کو غیر موثر کیا ہو۔اٹارنی جنرل نے جواب الجواب میں دلائل دئیے کہ آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست سننے کے چار مراحل ہیں،پہلا مرحلہ درخواست دائر ہونا، دوسرا مرحلہ درخواست کا جائزہ لینا ہے،تیسرا مرحلہ آرٹیکل 184 کی شق کا استعمال کرنا اور چوتھا مرحلہ
سماعت کرنا ہے،اٹارنی جنرل نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بنچ سے الگ کرنے سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ کے اختلافی نوٹ کا حوالہ دیتے ہو? کہا کہ جب بنچ بن جائے، کاز لسٹ جاری ہو جائے، بنچ سماعت شروع کردے تو چیف جسٹس کا انتظامی اختیار ختم ہو جاتا ہے،سپریم کورٹ کا ہر بنچ سپریم کورٹ ہے۔عدالت عظمیٰ نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔