اسلام آباد (مانیٹرنگ، این این آئی)سابق افغان وزیراعظم گلبدین حکمت یار اور سربراہ حزب اسلامی گلبدین حکمت یار نے جیو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان اگر پرُامن راستہ اختیار کر لیں تو ان کا ساتھ دیں گے،طالبان کی موجودہ حکمت عملی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان شہروں پر قبضہ کرلیں اور ملک میں جنگ بھی رہے تو بدبختی قائم رہے گی۔
انہوں نے کہاکہ افغانستان میں امن کے لئے فوری سیز فائر ہونا چاہیے، سابق افغان وزیراعظم نے کہا کہ عبوری حکومت اور انتخابات کے ذریعے انتقالِ اقتدار ہونا چاہیے۔خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان حکومت نے ہمیں طالبان کے خلاف اسلحہ دینے کی پیشکش کی، ہم نے اسلحہ لینے اور طالبان سے جنگ کرنے سے انکار کردیا۔انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے افغانستان سے متعلق بیان کو قابل تحسین قرار دیا۔افغانستان کے سابق وزیراعظم نے کہا کہ عمران خان نے کہا کہ ماضی میں غلطیاں کیں اب کوئی فیورٹ نہیں۔گلبدین حکمت یار نے کہا کہ اپنے بیان میں وزیراعظم عمران خان نے حزب اسلامی کا ذکر کیا جو درست ن ہیں تھا، پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف جنگ کے بعد کب ہماری مدد کی، انہوں نے افغانستان کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت کے بعض عناصر نے اشرف غنی کو غلط مشورے دیے، دوسری جانب طالبان نے افغانستان کے شمالی ضلعے پر قبضہ کرنے کے چند دن بعد مقامی مساجد کے پیش اماموں کو خط کے ذریعے خواتین کے گھر سے باہر نکلنے اور سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے دوران ہی طالبان نے اہم سرحدوں اور کئی اضلاع کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے
تاہم کچھ اضلاع میں مقامی کمانڈرز کی جانب سے خواتین اور شہریوں پر سخت پابندیوں کے اطلاق کی خبریں بھی موصول ہورہی ہیں۔شمالی علاقے میں کسٹم پوسٹ شیر خان بندر کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد خواتین کے اکیلے باہر نکلنے اور سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اس پابندی کا حکم مقامی مساجد کے اماموں کو ایک
خط کے ذریعے دیا گیا۔طالبان کے مقامی کمانڈر کے خط میں متنبہ کیا گیا ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں پر سنجیدگی سے کارروائی کی جائے گی۔ امام مسجد نے خطبے میں اس فیصلے سے شہریوں کو آگاہ کیا جب کہ کچھ مساجد میں اس کے لیے لاؤڈ اسپیکر بھی استعمال کیا گیا۔عالمی خبر رساں ادارے ”اے ایف پی“ سے بات
کرتے ہوئے ایک خاتون نے تعارف ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہمارے گاؤں میں بہت سی خواتین اور کم عمر لڑکیاں سلائی کڑھائی اور جوتیاں بنانے کا کام کررہی تھیں لیکن اب یہ لڑکیاں خوف زدہ ہیں۔خاتون نے اے ایف پی کو مزید بتایا کہ شیر خان بندر پر قبضے کے بعد طالبان نے خواتین کو اکیلے باہر نکلنے سے منع کردیا ہے۔
ملازمتیں کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والی خواتین اس پابندی سے سخت کرب میں مبتلا ہیں۔اسی طرح ایک گاؤں میں داڑھی مونڈوانے اور لڑکوں کے سرخ اور بھڑکیلے رنگ کے کپڑے پہننے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے جب کہ مردوں کو باہر نکلتے وقت پگڑی پہننا بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔رواں ہفتے ہی سوشل میڈیا پر طالبان کی جانب
سے ایک بیان بھی جاری کیا گیا جس میں دیہاتیوں کو اپنی بیٹیوں اور بیوہ عورتوں کی شادی طالبان سے کرانے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ زیر اثر علاقوں کے امام مسجد طالبان کو 15 سال سے زائد عمر کی لڑکیوں اور 45 سال سے کم عمر کی بیوہ خواتین کی فہرست فراہم کریں۔غیر معروف طالبان ثقافتی کمیشن کی جانب سے
جاری بیان کی طالبان کے ترجمان کی جانب سے تردید یا تصدیق نہیں کی گئی تاہم افغانستان میں ترجمان طالبان ڈاکٹر نعیم نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ طالبان کی فتح سے خوف زدہ ذہنوں نے خود ساختہ اور گمراہ کن تصاویر، ویڈیوز اور خط جاری کیے ہیں جن کا طالبان سے کچھ لینا دینا نہیں۔ڈاکٹر نعیم نے مفتوحہ علاقوں کے مکینوں کو
مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پْرامن رہیں اور خوف زدہ نہ ہوں۔ طالبان صرف غیر ملکی فوجیوں کے لیے خطرہ تھے اور رہیں گے۔ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی گمراہ کن مواد کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔امریکا کے ساتھ دوحہ میں امن معاہدے کے بعد سے مختلف انٹرویوز میں ترجمان طالبان سہیل شاہین نے خواتین کو تمام حقوق کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی تھی اور طالبان کے دیگر رہنماؤں کا بھی یہی اصرار رہا ہے کہ ماضی کے برعکس اس بار طالبان حکومت میں خواتین کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں ہوگا۔