اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )حضرت یوسف علیہ السلام کی قبر کے متعلق حیرت انگیز واقعہ بتائیں گے ۔ کہ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ کسی اعرابی کے ہاں مہمان ہوئے،اس نے آپﷺ کی بڑی خاطر تواضع کی،واپسی میں آپ ﷺ نے فرمایا:کبھی ہم سے مدینہ میں بھی مل لینا۔کچھ دنوں بعد اعرابی آپ ﷺ کے پاس آیا حضور ﷺ نے فرمایا: کچھ چاہیے؟اس نے کہا ہاں! ایک تو اونٹنی دیجیے،
مع ہودج کے، اورایک بکری دیجیے جو دودھ دیتی ہو۔ آپ نے فرمایا:افسوس! تو نے بنی اسرائیل کی بڑھیا جیسا سوال نہ کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا وہ واقعہ کیا ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا:جب کلیم اللہ بنی اسرائیل کو لے کر چلے تو راستہ بھول گئے،ہزار کوشش کی لیکن راہ نہ ملی۔آپ نے لوگوں کو جمع کرکے پوچھا یہ کیا اندھیرا ہے؟ تو علمائے بنی اسرائیل نے کہا بات یہ ہے کہ حضرتِ یوسف علیہ السلام نے اپنے آخر وقت میں ہم سے عہد لیا تھا کہ جب مصر سے چلیں تو آپ کے تابوت کو بھی یہاں سے اپنے ساتھ لیتے جائیں۔حضرتِ موسٰی علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ تم میں سے کون جانتا ہے کہ حضرتِ یوسف علیہ السلام کی تربت کہاں ہے؟ سب نے انکار کردیاکہ ہم نہیں جانتے،ہم میں ایک بڑھیا کے سوا کوئی بھی آپ کی قبر سے واقف نہیں۔آپ نے اس بڑھیا کے پاس آدمی بھیج کر اسے کہلوایا کہ مجھے حضرتِ یوسف علیہ السلام کی قبر دکھلا۔بڑھیا نے کہا ہاں دکھلاوں گی، لیکن پہلے اپنا حق لے لوں، حضرتِ موسیٰ علیہ السلام نے کہا :تو کیا چاہتی ہے؟اس نے کہا جنت میں آپ کا ساتھ مجھے میسر ہو۔آپ علیہ السلام پر اس کا یہ سوال بہت بھاری پڑا۔اس وقت وحی آئی کہ اس کی بات مان لو،اس کی شرط منظور کرلو۔ اب وہ آپ کو ایک جھیل کے پاس لے گئی،جس کے پانی کا رنگ بھی متغیر ہو گیا تھا اور کہا اس کا پانی نکال ڈالو۔جب پانی نکال دیاگیا اور زمین نظر آنے لگی تو کہا:اب یہاں کھودو،کھودنا شروع ہوا تو قبر ظاہر ہوگئی،تابوت ساتھ رکھ لیا۔ اب چلنے لگے تو راستہ صاف نظر آنے لگا اور سیدھی راہ لگ گئی۔جو آپ کا تابو ت تھا وہ سنگ مرمر کا بنا ہواتھا۔ اور اس کو حضرت موسی ؑ فلسطین لے گئے ۔ اور حضرت اسحاق ؑ اور حضرت یعقو ب ؑ کے برابر لا کر ان کو دفن فرما دیا۔ یہ حضرت یوسفؑ کی قبر مبارک جو ہے اس کے متعلق حیرت انگیز واقعہ کہ اللہ پاک نے ا ن کی قبر مبارک کو ایسے پوشیدہ کردیا۔ گویا ایک دریائے نیل کے کنارے جو جھیل بنی ہوئی تھی اس کے اندرے رکھا گیا۔ اور تابو ت بالکل محفوظ رہا۔ چونکہ وہ سنگ مرمرکا بنا ہواتھا۔ بہرحال نبی اکرم ﷺ نے اس اعرابی سے ارشاد فرمایا: کہ مجھے تو شک تھا کہ کہیں تم نہ کہہ دو کہ یاسول اللہ ﷺ میں آپ کا ساتھ چاہتا ہوں ۔ جنت میں آپ کے ساتھ رہوں۔ جیسے اس بڑھیا نے کہا تھا۔ تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: تم نے دنیا کی چیزیں طلب کر لی ہیں اور اس بڑھیا نے جو بڑی سمجھدار تھی آخرت کی ایک بہت بڑی چیز کہ موسی ؑ کی رفاقت نصیب ہوجائے ۔ وہ طلب کرلی۔ بہرحال ہرانسان کا اپنا ذہن ہے کہ وہ کس موقع پر ،کس جگہ کس سے کیا چیز مانگتا ہے؟دعاہے اللہ ہمیں بھی جنت میں حضور اکرم ﷺ کا قرب نصیب فرمادیں۔ آمین۔