بدھ‬‮ ، 21 مئی‬‮‬‮ 2025 

سوائے سندھ کے پورے ملک میں ترقی ہورہی ہے، چیف جسٹس‎ پاکستان گلزار احمد ‎

datetime 14  جون‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(این این آئی)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سندھ حکومت کے پاس ایک ہی منصوبہ ہے بد سے بدتر بناؤ، سوائے سندھ کے پورے ملک میں ترقی ہورہی ہے، سندھ میں حکومت ہے ہی نہیں۔ کراچی کو یونس میمن کینیڈا سے آپریٹ کررہا ہے، یونس میمن ساری بڈنگ وہاں بیٹھ کر دیکھ رہا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں

سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے کراچی رجسٹری میں شارع فیصل پر نسلہ ٹاور تجاوزات کیس کی سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ آپ لوگوں نے سروس روڈ پر بلڈنگ تعمیر کردی؟۔ بلڈر کے وکیل نے کہا کہ پل کی تعمیر کی وقت سڑک کا سائز کم کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شاہراہ فیصل کے اطراف سروس روڈ انکروچمنٹ کیا گیا، کمشنر بھی کہہ رہے ہیں قبضہ ہے، کنٹونمنٹ بورڈ حکام پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیاکہ نیول برج، دہلی کالونی سے لے کر سب تعمیرات غیر قانونی ہیں، کنٹونمنٹ مقاصد کے لیے زمین نہیں چاہیے تو واپس کریں۔دوران سماوت وکیل ٹاور الاٹیز عابد زبیری نے کہاکہ شاہراہ فیصل کا سائز 1957 میں کم کیا گیا تھا،اس پرچیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ شارع فیصل کا سائز کبھی کم نہیں ہوا، شارع کو وسیع کرنے کیلئے تو فوجیوں نے بھی زمین دے دی تھی، سارے رفاعی پلاٹوں پر پلازے بن گئے، سمجھتے ہیں عدالت کو پتا نہیں چلے گا؟ حکومت کہاں ہے؟؟ کون ذمہ داری لے گا؟؟؟ جو پیسہ دیتا ہے اس کا کام ہوجاتا ہے کتنا ہی غیر قانونی کام ہو، اب بھی دھندا چل رہا ہے ایس بی سی اے کا کام چل رہا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ سارے رفاہی پلاٹس ہیں، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہے، پیسے دیں جو چاہے کریں، سندھ میں حکومت ہے ہی نہیں ہے، عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ پر اظہار برہمی بھی کیا۔عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران یونس میمن نام کے شخص کا تذکرہ ہوا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کراچی کو یونس میمن کینیڈا سے آپریٹ کررہا ہے، یونس میمن ساری بڈنگ وہاں بیٹھ کر دیکھ رہا ہے۔سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کے وکیل سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ پورے ملک میں ترقی ہورہی ہے سوائے سندھ کے، تھرپارکر میں آج بھی لوگ پانی کی بوند کیلئے ترس رہے ہیں، ایک آر او پلانٹ نہیں لگا، پندرہ سو ملین روپے

خرچ ہوگئے، حکومت کے پاس کیا منصوبہ ہے؟؟ صورت حال بدترین ہورہی ہے، بدقسمتی ہے ہماری، کوئی لندن سے حکمرانی کرتا ہے کوئی دبئی سے کوئی کینیڈا سے، ایسا کسی اور صوبے میں نہیں ہے سندھ حکومت کا خاصا ہے یہ ہے، یہاں ایک اے ایس آئی بھی اتنا طاقتور ہوجاتا ہے پورا سسٹم چلا سکتا ہے۔چیف جسٹس نے سماعت کے دوران کہا کہ صوبہ میں ایک تعلیم کا پروجیکٹ 2600 بلین روپے کا 2014 میں شروع ہوا 2017 میں ختم ہوا، ان پیسوں سے دنیا کی بہترین یونیورسٹی بنائی جاسکتی تھی،

آر او پلانٹس کا پیسہ 15 سو بلین روپے ہے، تھر کے لوگ آج بھی پانی کو ترستے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ سندھ حکومت کے پاس ایک ہی منصوبہ ہے بد سے بدتر بناؤ،آپ لوگ فیصلہ کرلیں کرنا کیا ہے اس طرح حکومت نہیں چلتی بلکہ حکومت ہے ہی نہیں۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ بتائیں ان حالات میں صوبہ کیسے گزارا کرے گا، آپ سب جانتے ہیں بتائیں ہمیں، آپکی حکومت کیسے کوئی اور چلا سکتا ہے کسی کو تو کھڑا ہوکر اس کو روکنا ہوگا۔

چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہاکہ پارلیمانی طرز حکومت کا کچھ مطلب ہوتا ہے پارلیمانی حکومت مضبوط حکومت ہوتی ہے،جب آپ نالہ صاف نہیں کراسکتے تو صوبہ کیسے چلائیں گے؟ سال پہلے نالہ صاف کرنے کا حکم دیا، روزانہ نئے نئے بہانے کرتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ صاحب کل تک بتائیں کیا کرنا ہے، کل مجھے کسی نے کلپ بھیجا ایک خاتون کو ٹرالی میں لے جارہے تھے ایمبولینس نہیں تھی۔مسٹر ایڈوکیٹ جنرل اپنی حکومت سے پوچھ کر

بتائیں کیا چاہتے ہیں آپ؟ جائیں اندرون سندھ میں خود دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ سب نظر آجائے گا، پتا نہیں کہاں سے لوگ چلتے ہوئے آتے ہیں جھنڈے لہراتے ہوئے شہر میں داخل ہوتے کسی کو نظر نہیں آتے، کم از کم پندرہ بیس تھانوں کی حدود سے گزر کر آئے ہوں گے کسی کو نظر نہیں آیا، ابھی وہاں رکے ہیں کل یہاں بھی آجائیں گے، اتنے سالوں سے آپ کی حکومت ہے یہاں کیا ملا شہریوں کو؟؟

ایڈوکیٹ جنرل نے درخواست کی کہ کل بجٹ کی تقریر ہے دو دن کی مہلت دے دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بجٹ تو ہر سال پیش کرتے ہیں مخصوص لوگوں کیلئے رقم مختص کردیتے ہیں بس، بجٹ تو پچھلے سال بھی آیا تھا لوگوں کو کیا ملا؟؟۔چیف جسٹس نے کہاکہ بجٹ کا مطلب اپنے لئے فنڈ مختص کرنا ہوتا ہے عوام کے لئے نہیں،لوگوں کو تو ایک پیسے کا فائدہ نہیں ہوتا،ایڈووکیٹ جنرل صاحب ہمارے سامنے ایسی

بات کیوں کرتے ہیں،چھوٹے چھوٹے ادارے ہیں آپ کے شہر کے آپ کے بس میں نہیں ہیں۔اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے چیف جسٹس پاکستان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ سوری مائی لارڈسماعت کے دوران بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہاکہ منیر اے ملک صاحب پیش ہوتے ہیں وہ ملک سے باہر ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہاکہ ملک میں غیر یقینی صورتحال ہے، عدالت نے منیر اے ملک کی عدم موجوگی کے باعث سماعت 16 جون تک ملتوی کردی۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل واپس نہ لیا گیا تو سڑکوں پر آئیں گے، فضل الرحمن


اسلام آباد (این این آئی)جمعیت علما اسلام کے سربراہ…

غزوہ ہند

بھارت نریندر مودی کے تکبر کی بہت سزا بھگت رہا…

10مئی2025ء

فرانس کا رافیل طیارہ ساڑھے چار جنریشن فائیٹر…

7مئی 2025ء

پہلگام واقعے کے بارے میں دو مفروضے ہیں‘ ایک پاکستان…

27ستمبر 2025ء

پاکستان نے 10 مئی 2025ء کو عسکری تاریخ میں نیا ریکارڈ…

وہ بارہ روپے

ہم وہاں تین لوگ تھے‘ ہم میں سے ایک سینئر بیورو…

محترم چور صاحب عیش کرو

آج سے دو ماہ قبل تین مارچ کوہمارے سکول میں چوری…

شاید شرم آ جائے

ڈاکٹرکارو شیما (Kaoru Shima) کا تعلق ہیرو شیما سے تھا‘…

22 اپریل 2025ء

پہلگام مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ کا چھوٹا…

27فروری 2019ء

یہ 14 فروری 2019ء کی بات ہے‘ مقبوضہ کشمیر کے ضلع…

قوم کو وژن چاہیے

بادشاہ کے پاس صرف تین اثاثے بچے تھے‘ چار حصوں…