اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )جاوید چودھری اپنے آج کے کالم ’’رنگ روڈ۔۔دوسرا پانامہ سکینڈل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔راولپنڈی رنگ روڈ کی کہانی وزیراعظم عمران خان کے دفتر سے شروع ہوئی‘ وزیراعظم کو کسی دوست نے بتایا آپ کے خلاف بھی پانامہ سکینڈل بن چکا ہے‘ آج آپ کی حکومت ختم ہو جاتی ہے تو آپ کے لیے راولپنڈی رنگ روڈ کافی ہو گی‘ آپ باقی زندگی فائلیں اٹھا کر
ایک عدالت سے دوسری عدالت دھکے کھاتے رہیں گے‘ وزیراعظم کے لیے یہ انکشاف پریشان کن تھا‘ وزیراعظم کو دوست نے چند اکائونٹ نمبرز‘ چند فون نمبرز‘ چار اعلیٰ سرکاری افسروں کے عہدے اور 10 ہائوسنگ سوسائٹیوں کے نام دیے اور وزیراعظم کو کمشنر راولپنڈی کیپٹن(ر) محمد محمود سے چند سوال پوچھنے کا مشورہ دیا‘ وزیراعظم نے خفیہ تحقیقات کرائیں‘ الزام سچ نکلا‘ وزیراعظم نے کمشنر راولپنڈی کیپٹن محمود کو بلایا اور ان سے صرف ایک سوال پوچھا ’’آپ کو راولپنڈی رنگ روڈ کا روٹ بدلنے اور اٹک لوپ کو اس میں شامل کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا‘‘ کیپٹن محمود نے فوراً جواب دیا ’’مجھے کسی نے نہیں کہا تھا‘‘ وزیراعظم نے دوبارہ پوچھا ’’کیا آپ کو کسی وفاقی وزیر یا سپیشل ایڈوائزر ٹو پی ایم نے سفارش نہیں کی؟‘‘ کمشنر نے صاف انکار کر دیا‘ یہ انکار وزیراعظم کو برا لگا‘ کیوں؟ کیوں کہ وزیراعظم کے پاس سارا ریکارڈ موجود تھا‘ یہ جانتے تھے وفاقی وزیر غلام سرور خان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کمشنر راولپنڈی پر اثرانداز ہوئے تھے اور اس اثرورسوخ کی وجہ سے 10 ہائوسنگ سوسائٹیوں نے چند ماہ میں اربوں روپے کمائے تھے‘ کمشنر کے انکار نے وزیراعظم کے خدشات کو مضبوط بنا دیا اور انہوں نے راولپنڈی کی ساری انتظامیہ کمشنرکیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود‘ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی محمد انوار الحق‘ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر
ریونیوکیپٹن (ر) شعیب علی اور اسسٹنٹ کمشنر صدر غلام عباس کو عہدوں سے ہٹا دیا اور چیئرمین چیف منسٹر انسپکشن ٹیم گلزارحسین شاہ کو کمشنر راولپنڈی لگایا اور انہیں راولپنڈی رنگ روڈ کی انکوائری کا حکم دے دیا‘ کمشنر گلزارحسین شاہ نے کام شروع کیا اور 11مئی کو انکوائری رپورٹ آ گئی‘ بیوروکریسی میں گلزار حسین شاہ کی شہرت اچھی نہیں‘ یہ ڈسکہ میں این اے 75کے الیکشن کے
دوران کمشنر گوجرانوالہ تھے اور ان پر الیکشن میں اثرانداز ہونے کا الزام لگا تھا مگر اس کے باوجود گلزار حسین کی انکوائری رپورٹ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا‘ میںنے اپنے 28 سال کے صحافتی کیریئر میں کسی سرکاری افسر کی تیار کردہ اتنی تگڑی اور جامع رپورٹ نہیں دیکھی‘ اس رپورٹ نے ثابت کر دیا اگر سرکاری افسر کام کرنا چاہے تو یہ ایک ہفتے میں تمام تحقیقاتی اداروں اور
جے آئی ٹیز کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے‘ یہ رپورٹ ہمارے پورے سسٹم کا نوحہ بھی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے سیاست دان‘ بیوروکریٹس اور طاقتور اداروں کے ریٹائرڈ افسر کس طرح مل کر پورے نظام کو توڑ مروڑکر ایک ایک رات میں عوام کی جیب سے کھربوں روپے نکال لیتے ہیں‘ میں عمران خان کا ناقد ہوں‘ میں چھ سال سے ان پر تنقید کر رہا ہوں لیکن
یہ رپورٹ پڑھ کر پہلی مرتبہ مجھے ان پر ترس آیا‘ یہ شخص واقعی ہر طرف سے مفاد پرستوں میں گھرا ہوا ہے‘ سرکاری افسر‘ وزیراعظم کے دوست اورحکمران پارٹی کے عہدیدار ملک کو لوٹ رہے ہیں اور یہ ملک اور اپنے آپ کو ان سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن سوال یہ ہے یہ کس کس سے بچے گا؟ اس ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔