اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) اس کیس کے مکمل ریکارڈ سے یہ عیاں ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے قانونی گفتگو کے ذریعے اپنی برطانیہ کی املاک، غیر ملکی لین دین، ذرائع آمدنی اور خاندانی ٹیکس سے متعلق معاملات کے حوالے سے ایک درجن سے زیادہ سوالات کا جواب دیا۔ روزنامہ جنگ میں زاہد گشکوری کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ اور سرکاری
قانونی ٹیم نے سوال کیا کہ برطانوی املاک کس کی ملکیت ہیں؟ عدالت کے روبرو پیش کیے گئے شواہد نے یہ ثابت کیا کہ جائیدادیں سرینا عیسیٰ اور ان کے بچوں کی ملکیت ہیں ، جس نے حکومت کے اس دعوے کی تردید کی کہ جج عیسیٰ ان جائیدادوں کے مالک ہیں۔ سپریم کورٹ اور سرکاری قانونی ٹیم نے پوچھا کہ کیا جج عیسیٰ کا برطانوی املاک سے کوئی تعلق ہے؟کیس دستاویزات کے مکمل مطالعے سے یہ بات سامنے آئی کہ ریکارڈ پر ایک بھی ثبوت نہیں آیا جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ جسٹس عیسیٰ ان جائیدادوں کے مالک ہیں۔ ججوں اور سرکاری قانونی ٹیم نے پوچھا کہ یہ برطانوی املاک کس نے خریدیں؟ مقدمے کی کارروائی اور سرکاری ریکارڈ کے مطابق سپریم کورٹ اور ایف بی آر دونوں نے تسلیم کیا کہ سرینا عیسیٰ نے برطانوی املاک خریدیں۔ سپریم کورٹ اور سرکاری قانونی ٹیم نے سوال کیا کہ کیا سرینا عیسیٰ نے ناجائز فنڈز کے ذریعے جائیدادیں خریدیں؟ ریکارڈ پر ایک بھی ثبوت سامنے نہیں آیا کہ سرینا عیسیٰ نے ناجائز ذرائع آمدن کے ذریعے املاک حاصل کیں۔ ایف بی آر اور سپریم کورٹ نے سرینا عیسیٰ کی ذریعہ آمدنی تسلیم کیا اور
اس عمل میں کوئی غیر قانونی مداخلت شامل نہیں۔ سپریم کورٹ اور ٹیکس حکام نے سوال کیا کہ کیا برطانیہ میں فنڈز کی منتقلی کے دوران سرینا منی لانڈرنگ یا حوالہ ہنڈی میں ملوث تھیں؟ ٹیکس حکام نے واضح کیا کہ سرینا عیسیٰ کی جانب سے 2003 سے 2014 تک زیر تفتیش جائیدادوں کی خریداری کیلئے کئے گئے سارے لین دین قانونی
تھے۔کارروائی کے دوران دو ججوں نے کہا کہ جائیداد خریدنے کے بجائے بچوں کی معاونت کے طور پر مقصد دکھائیں ۔ دستاویزی ثبوت کے ذریعہ سرینا عیسیٰ نے سپریم کورٹ کو باور کرایاکہ انہوں نے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ 11 سال کے عرصے میں ایک کے بعد ایک جائیدادیں خریدنے کے لئے بینکاری چینل کے ذریعے آہستہ آہستہ پاکستان سے برطانیہ رقم منتقل کی۔
عدالت عالیہ کی توثیق شدہ دستاویزات کے مطابق املاک مشترکا طور پر ان کی اور بچوں کی ہیں۔ ججوں نے سوال کیا کہ کیا بچے انحصار کرنے والے (ڈیپنڈنٹ) تھے؟ یہ بھی عدالت میں کیس دستاویزات کے ذریعے ثابت کیا گیا کہ انڈر ٹرائل جج کے بچے اور اہلیہ ڈیپنڈنٹ نہیں تھے۔ بچے برطانیہ میں ٹیکس ادا کر رہے تھے اور سرینا عیسیٰ آزادانہ طور پر اپنا ٹیکس ادا کررہی تھیں اور پاکستان میں
بھی ریٹرن فائل کررہی تھیں۔ سپریم کورٹ کے ججوں اور ٹیکس حکام نے سوال کیا کہ کیا سرینا نے اپنی برطانوی املاک ظاہر کیں؟ سرینا عیسیٰ کی جانب سےعدالت کے روبرو پیش کیے گئے دستاویزی ثبوت ، جن کی تائید سماعت کے دوران ججوں نے بھی یکساں طور پر کی، سے انکشاف ہوا کہ نیا قانون نافذ ہونے کے بعد انہوں نے اپنے بیرون ملک اثاثوں کو
ظاہر کیا۔ سپریم کورٹ نے پوچھا کہ کیا ایف بی آر نے سرینا کو آف شور ظاہر نہ کرنے پر کوئی نوٹس دیا تھا؟ ٹیکس حکام نے بتایا کہ انہوں نے سرینا عیسیٰ یا ان کے اہل خانہ کو اس مخصوص معاملے پر کبھی کوئی نوٹس نہیں دیا۔ ٹیکس حکام اور سپریم کورٹ نے پوچھا کہ کیا سرینا کے پاس غیر ملکی اثاثے خریدنے کے لئے اتنا ذریعہ آمدن موجود تھا؟ اس مسئلے پر کہ آیا سرینا کو یوکے کی
جائیدادیں حاصل کرنے کے لئے جائز رقوم دستیاب تھیں ، عدالت عظمیٰ اور ٹیکس حکام کے سامنے پیش کی گئی دستاویزات سے انکشاف ہوا کہ انہوں نے تنخواہ، والد کے تحائف اور اپنی سیکڑوں کنال زرعی اراضی کے ذریعہ آمدنی حاصل کی۔ عدالت میں بھی ذرائع آمدنی کے جواز کے بارے میں کوئی تنازع نہیں تھا۔ ٹیکس حکام نے پوچھا کہ کیا سرینا نے اپنا ایک بینک اکاؤنٹ چھپایا تھا
جس کی ملکیت جج عیسیٰ کے پاس بھی تھی؟ ایف بی آر کے کمشنر ذوالفقار احمد نے ان کی 164 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کچھ نکات بتائے تھے کہ بیوی اور شوہر دونوں سے منسلک ایک مقامی بینک اکاؤنٹ ڈیکلیریشن میں غائب تھا، غیر اعلانیہ آف شور اور ان کی ناقابل حساب زرعی آمدنی لہٰذا یہ ایک الگ کیس ہوسکتا ہے اگر سپریم کوٹ اجازت دے۔ عدالت نے ایف بی آر کے نتائج کی توثیق نہیں کی۔