اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی درخواستوں پر سماعت مکمل ہوگئی جس کے بعد سپریم کورٹ نے نظر ثانی کی درخواست منظو رکرلی ،سرینہ عیسیٰ کی درخواست 10 میں سے 6 ججز نے منظور کی،جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس سجاد علی اور جسٹس قاضی امین نے
فیصلے سے اختلاف کیا ۔ پیر کو جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ بینچ نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کی سماعت کی۔حکومتی وکیل عامر رحمن نے عدالت کو بتایا کہ فروغ نسیم بیماری کے باعث آج نہیں آسکے وہ منگل کو ذاتی حیثیت میں دلائل دینا چاہتے ہیں، اس پر سپریم کورٹ نے کہاکہ فروغ نسیم تحریری دلائل جمع کرادیں۔جسٹس منصورعلی شاہ نے سماعت میں استفسار کیا کہ ہماراسوال یہ ہے کہ ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم دیا بھی جاسکتا تھا یا نہیں،ہم کیس میں ایف بی آر رپورٹ کی قانونی حیثیت نہیں دیکھ رہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ میں ان سوالات کو کلیئر کر دیتا ہوں، جسٹس عمرعطا بندیال کیس میں نیا پنڈورا باکس کھولنا چاہتے ہیں، بار بار یاد دہانی کراچکا وقت کم ہے، بینچ کے ایک ممبر کو 4 دن میں ریٹائر ہو جانا ہے،بلاوجہ عدالت کا وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔حکومتی وکیل عامر رحمن نے کہا کہ میں ان سوالات کے جوابات دے رہا ہوں جوعدالت نے مجھ سے کیے، درخواست گزار بار بار کہہ رہے ہیں کہ میں عدالت کا وقت ضائع کر رہا ہوں۔جسٹس مقبول باقرنے اپنے ریمارکس میں کہاکہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ عدالت ایف بی آر رپورٹ نہیں دیکھے گی۔حکومتی وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے سماعت میں دلائل دیتے ہوئے کہاکہ جسٹس
منصورعلی شاہ نے حق دعویٰ نہ ہونے کا سوال اٹھایا تھا،وفاقی حکومت کیس میں باضابطہ فریق ہے، عدالت نیوفاقی حکومت کونوٹس جاری کرکے جواب مانگا تھا۔وکیل وفاقی حکومت نے کہاکہ وفاقی حکومت نے ریفرنس کالعدم ہونے پر نظرثانی نہیں کی، عدالت نے ریفرنس قانونی نکات میں بیاحتیاطی برتنے پر کالعدم کیا تھا،عدالت نے
کہا تھا سرینا عیسیٰ کو وضاحت کا موقع دیے بغیر ریفرنس دائر کیا گیا۔وکیل عامر رحمن نے کہاکہ عدالت کیس ایف بی آر کو نہ بھجواتی تو وفاقی حکومت نظرثانی اپیل دائر کرتی، حکومت کیس ایف بی آر کو بھجوانے کا دفاع کرنے میں حق بجانب ہے،وفاق کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ عدالتی احکامات کا دفاع کرے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے
کہاکہ ایک سوال جسٹس منیب اختر صاحب کی طرف سے پوچھا گیا تھا کہ نظرثانی درخواست منظور ہوگئی تو بھی کیاایف بی آر رپورٹ پر کارروائی ہوسکتی ہے؟ اس پر کہنا یہ ہے کہ اگر کسی فیصلے پر عملدر آمد ہوجائے تو نظرثانی کے باوجود وہ فیصلہ واپس نہیں ہوسکتا۔وکیل عامر رحمن نے دلائل میں کہا کہ جسٹس عمر عطا بندیال کی
طرف سے سوال پوچھا گیا تھا کہ کیا سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو دستیاب معلومات کا جائزہ لینے سے روک سکتی ہے؟ اس پر جواب میں کہنا ہے کہ معلومات کے حصول کے بعد سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو ہدایات جاری نہیں کرسکتی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرٹیکل 211 کے تحت جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر
سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس میں کہا کہ آپ اپنے پہلے دیے گئے دلائل کے خلاف دلائل دے رہے ہیں، سپریم کورٹ نیاکثریتی فیصلے میں سپریم جوڈیشل کونسل کو ہدایات جاری کیں،لگتا ہے آپ اپنے ہی کیس کیخلاف دلائل دے کر درخواست گزار کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے ایڈیشنل اٹارنی
جنرل سے مکالمہ میں کہاکہ آپ محتاط انداز میں دلائل دیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ میری دلیل یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے تو سپریم جوڈیشل کونسل کو ہدایات جاری ہی نہیں کیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے کہاکہ عدالتی فیصلے میں کسی غلطی کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی، فیصلے میں قانونی غلطی ہو تو بھی نظر ثانی نہیں
ہوسکتی، سپریم کورٹ کاکوئی حکم ایف بی آر پر اثرانداز نہیں ہوا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے دلائل کے دوران جسٹس فائز عیسیٰ کی مداخلت کی کوشش کی تو جسٹس منظور احمد ملک نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے دلچسپ مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ قاضی صاحب میں نے متعدد بار آپ سے انگریزی زبان میں درخواست کی، قاضی صاحب کئی
بار اردو زبان میں بھی آپ سے درخواست کی، اب لگتا ہے پنجابی زبان میں آپ سے درخواست کرنا پڑے گی، قاضی صاحب مہربانی فرمائیں، اپنی نشست پر بیٹھ جائیں، حکومتی وکیل کو دلائل دینے دیں۔جسٹس فائز عیسٰی نے کہاکہ جسٹس منظور ملک نے پنجابی میں نہیں روکا، اس بات کا گلہ ہے،پنجابی میں کہوں گا تو ونج تے میں آیا، اس
پر جسٹس منظور ملک نے کہاکہ آپ نے غلط پنجابی بولی، یہ ویسے سرائیکی زبان ہے، جسٹس فائز عیسیٰ نے کہاکہ میرے استاد نے مجھے غلط پنجابی سکھائی ہے۔سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل پر اظہار ناراضگی کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ نے 3 سوالات پوچھے تھے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے
کہاکہ درخواست گزارجج کا جواب دینا لازم ہے یا نہیں اس کا جواب قانون شہادت میں ہے،قانون شہادت کے آرٹیکل 122 کے تحت جس پر الزام لگایا ہے اسے جواب دینا پڑتا ہے،جسٹس منظور احمد ملک نے کہاکہ آپ غیرمتعلقہ دلیل دے رہے ہیں۔جسٹس مظہرعالم نے کہاکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب قانون بھی واضح ہے اور ہمارے ذہن بھی
بالکل کلیئر ہیں، جسٹس قاضی امین نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ زیر سماعت مقدمہ فوجداری یا دیوانی ٹرائل نہیں، ایسے نہ کریں، ہم نیپوری زندگی اسی قانون کو پڑھنے میں گزار دی۔جسٹس عمرعطا بندیال نے کہاکہ جو جائیدادیں خریدی گئیں ان کے ذرائع کی تصدیق ایف بی آر کا کام ہے،موجودہ کیس میں تحقیقات سرینا
عیسیٰ کے خلاف شروع ہوئیں، اس معاملے کو دبانا زبردستی ختم کرنے کے مترادف ہے، عدالتی ساکھ کا تقاضا ہے کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے۔جسٹس بندیال نے حکومتی وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ جسٹس فائز عیسیٰ کہتے ہیں کہ وہ سرینا عیسیٰ کی جائیدادوں کیلئے جوابدہ نہیں، اگر آپ ان3 سوالات کاجواب مثبت دیں گے تو جسٹس
فائز عیسیٰ جوابدہ ہیں،اگر آپ ان 3 سوالات کے جوابات منفی دیں گے تو بات ختم، جسٹس فائزعیسیٰ نے ان 3 سوالات کے جوابات دینے سے انکار کیا۔جسٹس فائزعیسیٰ کا جسٹس عمرعطا بندیال سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ میرے منہ میں الفاظ ڈال کر بات نہ کریں، میں نے سوالات کا جواب دینے سے انکار نہیں کیا، میں نے صرف
سوالات پر اعتراض اٹھایا تھا۔سرینا عیسیٰ نے کہاکہ جسٹس عمرعطا بندیال اورجسٹس منیب اختر اپنے اہلخانہ کی جائیدادیں پبلک کریں،جسٹس عمرعطا بندیال کو ایک مشورہ ہے، جسٹس بندیال اور جسٹس منیب اختر احتساب میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر اپنے اور اپنی اہلیہ کے اثاثوں کی تفصیلات
پبلک کریں،اس پر جسٹس عمرعطا بندیال نے کہاکہ میڈم پلیز، آپ خاموش ہوجائیں۔جسٹس فائزعیسیٰ نے بینچ سیمکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ میری دعا ہے جو مجھ پربیتی وہ آپ میں سے کسی پر نابیتے،آج یہاں عدلیہ کی آزادی کیلئے کھڑا ہوں، انہوں نے کل سے پھر میرا میڈیا ٹرائل شروع کردیا ہے، ان سے کہنا چاہتا ہوں عزت دیں، میں آج
بھی ایک جج ہوں، ہمارے بچے بیویاں تو یہاں موجود ہیں۔عدالت نے فریقین کے دلائل سن لینے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی درخواستوں پر سماعت مکمل کرلی۔نجی ٹی وی کے مطابق بعد ازاں سپریم کورٹ نے سرینہ عیسی اور قاضی فائیز عیسی کی نظر ثانی درخواستیں منظور کر لیں جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے
حکم کے تناظر میں ہونے والی کارروائی کالعدم قرار دے دی گئی۔6 ججز نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں فیصلہ سنایا جبکہ 4 ججز جسٹس عمرعطا بندیال،جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی امین نے جسٹس فائز عیسیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف فیصلہ دیا۔یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے 19 جون کے فیصلے پر نظر ثانی درخواست دائر کی تھی۔