اسلام آباد(نیوزڈیسک)عدالت عظمیٰ نےملک میں غیر قانونی ٹیلی فون ایکسچینجوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ٹیلی کام کمپنیوں اور وفاقی حکومت سے دوبارہ رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ جسٹس جواد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر دہشتگردی کو ختم کرنا ہے تو غیر قانونی ٹیلیفون ایکسچینجوں کو ختم کرنا ہو گا، ملک میں دہشتگردی کی آگ لگی ہے ،امریکہ ،برطانیہ ،ملائیشیا،ترکی میں گرے ٹریفک کیوں نہیں ہوتی؟ اسلئے کہ وہاں قوانین پر سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے مگر یہاں یہ حال ہے کہ عدالت کا 24مارچ 2015ء کا آرڈر ہے جس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا،ایک بار کوئٹہ میں اس حوالے سے کیس کی سماعت کی تو ایک چھوٹے سے علاقے سے ایک ٹوکر ابھر کر غیر قانونی موبائل سمیں عدالت میں پیش کردی گئیں جب تک ان چیزوں پر قابو نہیں پایا جائے گا دہشتگردی پر قابو نہیں پایا جاسکتا ،جسٹس جواد کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تو وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر الرحمن نےبتایا کہ ایک رپورٹ پہلے رپورٹ پیش کی تھی جس پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا ، تازہ رپورٹ عدالت میں پیش کرنا تھی مگر وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان ملک سے باہر ہیں وہ خود عدالت میں پیش ہو کر رپورٹ کے حوالے سے اپنا موقف بیان کرنا چاہتی ہیں،عدالت نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کب واپس آئیں گی جب تک وہ نہیں آئیں گی کیاعدالت کیس کی سماعت نہ کرے؟انفارمیشن ٹیکنالوجی کی خاتون لیگل ایڈوائزر نے عدالت کو بتایا کہ ان کی واپسی کا شیڈول کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کب واپس آئیں گی ۔جسٹس جواد نے ریمارکس دیئے کہ یہ بیرون میں کام کرنے والے پاکستانی تارکین وطن کا پیسہ ہے وہ سولہ سترہ ارب روپے کا زرمبادلہ بھجتے ہیں،کیس میں ہمیں پہلی بار گرے ٹریفیکنگ کا معلوم ہوا ہے، عوام کے ساتھ 70ارب روپے کا ہاتھ ہوا ہے ، جس کا جتنا دائو لگتا ہے وہ قومی دولت ہڑپ کرنے کے چکر میں ہوتا ہے ،عدالت نے دو پرائیویٹ کمپنیوں کی جانب سے جمع کروائی جانے والی رپورٹ پر بھی عدم اطمینان کا اظہارکیا اور بعد ازاں ٹیلی کام کمپنیوں اور وفاقی حکومت کو دوبارہ جامع رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 23 جولائی تک ملتوی کر دی