نیویارک (مانیٹرنگ ڈیسک)کتنی چینی کا استعمال جسم کے لیے بہت زیادہ ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب مختلف ماہرین مختلف اعدادوشمار کے ساتھ دیں گے۔مگر امریکی محکمہ صحت یعنی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی ہدایات گزشتہ دنوں جاری ہدایات کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کو روزانہ صرف 50 گرام چینی کا استعمال کرنا چاہئے۔یہ تعداد 4 چائے کے چمچ یا سافٹ ڈرنک کے
ایک کین سے کم کچھ کم ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا بھی کہنا ہے کہ روزانہ 25 گرام یا چھ چائے کے چمچ چینی کا استعمال طبی لحاظ سے فائدہمند ثابت ہوتا ہے۔طبی ماہرین تو اسے جدید عہد کا زہر بھی قرار دیتے ہیں اور اگر آپ بھی بہت زیادہ میٹھے کے شوقین ہیں تو سائنسی طبی تحقیقی رپورٹس کی روشنی میں جان لیں کہ اس کے کیا اثرات آپ کو بھگتنا پڑسکتے ہیں۔یہ کوئی راز نہیں کہ بہت زیادہ چینی اور دانتوں کے امراض کے درمیان تعلق موجود ہے درحقیقت یہ میٹھی شے دانتوں کی صحت کی دشمن ہے اور اسے کیوٹیز کا بہت بڑا سبب قرار دیا جاتا ہے۔ طویل عرصے سے دندان ساز عالمی ادارہ صحت کے روزانہ چھ چائے کے چمچ چینی کے استعمال کو بھی کم کرنے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ ایک ماہر کے مطابق دانتوں کی فرسودگی اس وقت عمل میں آتی ہے جب عام چینی کے استعمال سے دانتوں کی سطح پر بیکٹریا پیدا ہوتے ہیں، جبکہ مٹھاس سے تیزاب پیدا ہوتا ہے جو دانتوں کی سطح کو تباہ کردیتا ہے،ایک ہارمون لپٹین جسم کو بتاتا ہے کہ کب اس نے مناسب حد تک کھالیا ہے۔ جن لوگوں میں اس ہارمون کی مزاحمت پیدا ہوجاتی ہے تو انہیں پیٹ بھرنے کا اشارہ کبھی موصول نہیں ہوتا اور یہ وزن کنٹرول کرنے کے لیے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ کچھ طبی تھقیق رپورٹس میں اس بات کا امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ لپٹین کی مزاحمت موٹاپے کے اثرات میں سے ایک ہے مگر چوہوں پر ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ بہت زیادہ چینی کا استعمال خاص طور پر اس کا سیرپ جو کولڈ ڈرنکس میں عام ہوتا ہے، براہ راست لپٹین کے لیول کو معمول سے زیادہ بڑھا دیتا ہے اور اس ہارمون سے متعلق جسمانی حساسیت میں کمی آجاتی ہے۔جب آپ ناشتے میں بہت زیادہ مٹھاس پر مشتمل غذا استعمال کریں تو کیا ہوگا؟ یہ آپ کے جسم میں انسولین کی طلب کا مطالبہ بڑھا دے گی۔ انسولین وہ ہارمون ہے جو غذا کو قابل استعمال توانائی میں تبدیل کرنے کا کام کرتا ہے مگر جب اس کی مقدار زیادہ ہو تو جسم اس کے حوالے سے کم حساس ہوجاتا ہے
اور خون میں گلوکوز جمنے لگتا ہے۔ ایک تحقیق کے دوران محققین نے چوہوں کو چینی کی بہت زیادہ مقدار سے بنی خوراک استعمال کرائی تو ان میں انسولین کی مزاحمت فوری طور پر سامنے آگئی۔ انسولین کی مزاحمت کی علامات میں تھکن، بھوک، دماغ میں دھند چھا جانا اور ہائی بلڈ پریشر شامل ہیں جبکہ یہ توند کے ارگرد اضافی چربی کا بھی باعث بنتی ہے۔1988 سے 2008 کے
درمیان امریکا میں ذیابیطس کے شکار افراد میں 128 فیصد اضافہ ہوا اور وہاں کے ڈھائی کروڑ لوگوں کو یہ مرض لاحق ہے۔ اسی طرح جن ممالک میں چینی کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے وہاں اس مرض کی شرح کافی بلند ہے۔ 51 ہزار خواتین پر ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جو لوگ میٹھے مشروبات جیسے کولڈ ڈرنکس، میٹھی آئس ٹی، انرجی ڈرنکس وغیرہ استعمال کرتے ہیں ان میں ذیابیطس کا خطرہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح تین لاکھ سے زائد افراد پر ہونے والی ایک اور
تحقیق میں بھی اس نتیجے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بہت زیادہ کولڈ ڈرنکس کا استعمال نہ صرف وزن میں اضافے کا باعث بنتا ہے بلکہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کا مرض بھی لاحق ہوسکتا ہے۔کریٹیو کامنز فوٹوموٹاپا چینی کے زیادہ استعمال کے نتیجے میں لاحق ہونے والے بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔ روزانہ صرف ایک کین کولڈ ڈرنک کا استعمال ہی ایک سال میں تین کلو وزن بڑھنے کا باعث بن جاتا ہے
جبکہ سوڈا کا ہر کین بہت زیادہ موٹاپے کا امکان بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ کولڈ ڈرنکس کا استعمال مضر ہے مگر دیگر میٹھی غذائیں کا موٹاپے سے تعلق کافی پیچیدہ ہے۔ چینی براہ راست موٹاپے کا خطرہ بڑھا سکتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ذیابیطس، میٹابولک سینڈروم یا عادات جیسے زیادہ غذا کا استعمال اور ورزش نہ کرنا بھی اس کا باعث بنتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ہماری غذا کی
سپلائی اور ان کے استعمال کا رویہ موٹاپے کا باعث بنتے ہیں۔بہت زیادہ مقدار میں چینی آپ کے جگر کو بہت زیادہ کام پر مجبور کردیتی ہے اور لیور فیلیئر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق چینی کو جس طرح ہمارا جسم استعمال کرتا ہے وہ جگر کو تھکا دینے اور متورم کردینے کے لیے کافی ثابت ہوتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ چینی کی بہت زیادہ مقدار جگر پر غیر الکحلی چربی
بڑھنے کے مرض کا باعث بن سکتی ہے اور یہ چربی بتدریج پورے جگر پر چڑھ جاتی ہے۔ عام فرد کے مقابلے میں 2 گنا زیادہ سافٹ ڈرنکس استعمال کرنے والے افراد میں اس مرض کی تشخیص زیادہ ہوتی ہے۔ جگر پر غیر الکحلی چربی کے امراض کے شکار بیشتر افراد کو اکثر علامات کا سامنا نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ وہ کافی عرصے تک اس سے آگاہ بھی نہیں ہوپاتے۔کچھ طبی تحقیق رپورٹس میں زیادہ چینی والی غذاؤں کے استعمال اور لبلبے کے کینسر کے خطرے میں اضافے کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اس تعلق کی وجہ ممکنہ طور پر یہ ہوتی ہے زیادہ میٹھی غذائیں موٹاپے اور ذیابیطس کا باعث بنتی ہیں اور یہ دونوں لبلے کے افعال پر اثر انداز ہوکر کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایک تحقیق میں چینی کے زیادہ استعمال اور کینسر کے خطرے کے درمیان تعلق کی تردید کی مگر محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔چینی سے بھرپور غذا اور بہت زیادہ سافٹ ڈرنکس کا استعمال گردوں کے امراض کا خطرہ بھی بڑھا سکتا ہے۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ میٹھے مشروبات کا استعمال گردوں کو
نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق گردوں کے نقصان اور میٹھے مشروبات کے درمیان تعلق ایسے افراد میں سامنے آیا ہے جو 2 یا 3 کولڈ ڈرنکس روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ کولڈ ڈرنکس کے بہت زیادہ استعمال اور گردوں کے امراض کے درمیان ٹھوس تعلق کے شواہد ملے ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ چوہوں کو چینی سے بھرپور غذا کا استعمال کرایا گیا تو ان جانوروں کے
گردوں نے آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیا جبکہ ان کے حجم میں بھی اضافہ ہوا۔عام طور پر نمک کو فشار خون یا ہائی بلڈ پریشر کا باعث سمجھا جاتا ہے مگر بہت زیادہ چینی کھانے کی عادت بھی آپ کو اس جان لیوا مرض کا شکار بناسکتی ہے۔ مختلف طبی رپورٹس کے مطابق طبی ماہرین نے بلڈ پریشر کے حوالے سے غلط سفید دانوں پر توجہ مرکوز کررکھی ہے۔ تحقیق کے مطابق نمک کے مقابلے میں
اس غذا پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے جو لت کی طرح انسانی دماغ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور وہ ہے چینی۔ محقین کے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ چینی کو ہضم کرنے سے یورک ایسڈ پیدا ہوتا ہے یعنی ایسا کیمیکل جو ہائی بلڈ پریشر کا باعث ہے۔تاہم محققین کے مطابق اس حوالے سے بڑے پیمانے پر طویل المعیاد تحقیق کی ضرورت ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی معمولی سی لاپرواہی یا منہ کے
ذائقے کا چسکا آپ کو دل کی بیماریوں کا شکار بنا سکتا ہے۔ جی ہاں بہت زیادہ میٹھی اشیاءکھانے کی عادت آپ کے دل کی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے خاص طور پر اگر آپ ایک خاتون ہیں۔ امراض قلب کو ایڈز یا کینسر جتنی توجہ نہیں ملتی مگر یہ دنیا میں اموات کا باعث بننے والی چند بڑی وجوہات میں سے ایک ہے کیونکہ ذیابیطس اور موٹاپے جیسے عناصر اس کا باعث بن سکتے ہیں۔
ایک تحقیق میں چوہوں پر کیے جانے والے تجربات سے معلوم ہوا کہ بہت زیادہ چینی والی غذاؤں کے استعمال سے ہارٹ فیلیئر کے کیسز زیادہ سامنے آنے لگے جبکہ بہت زیادہ چربی یا نشاستہ دار غذاؤں کے استعمال سے اتنا خطرہ پیدا نہیں ہوا۔ ہزاروں افراد پر ہونے والی ایک پرانی تحقیق میں بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ بہت زیادہ چینی کے استعمال اور دل کے امراض سے ہلاکتوں کے خطرے میں اضافے کے درمیان تعلق موجود ہے۔ اس تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ جو لوگ اپنی روزمرہ کی کیلوریز کی ضروریات کا 17 سے 21 فیصد حصہ چینی سے پورا کرتے ہیں، ان میں امراض قلب سے ہلاکت کا خطرہ 38 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔