نئی دہلی (این این آئی)ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ تعمیر ہونے والی مسجد احمد اللہ شاہ کے نام منسوب ہوگی۔میڈیارپورٹس کے مطابق انڈو اسلامک کلچرل فاونڈیشن نے بتایاکہ احمد اللہ شاہ 1857 کی جنگ آزادی کے جنگجو تھے۔آئی سی ایف کے سیکریٹری اطہر حسین کے مطابق مسجد کے نام کے حوالے سے بیشمار تجاویز موصول ہوئیں تاہم اس نتیجے پر پہنچے کہ مسجد کو احمد اللہ شاہ کے
نام منسوب کیا جائے گا۔احمد اللہ شاہ جنگ آزادی ہند 1857 کے ایک رہنما تھے۔ مولوی احمد اللہ شاہ کو اودھ کے علاقے میں بغاوت کا مرکزی رہنما تصور کیا جاتا ہے۔مسلمان ہونے کے ناطے وہ فیض آباد کے مذہبی اتحاد اور گنگا جمنا ثقافت کا ایک مظہر بھی تھے۔ جنگ آزادی ہند 1857 میں کئی شاہی شخصیات جیسے نانا صاحب اور خان بہادر خان روہیلہ بھی احمد اللہ شاہ کے ساتھ شریک ہوئے۔انگریز کبھی بھی مولوی کو زندہ نہیں پکڑ سکے۔ انہیں پکڑنے کے لیے چاندی کے 50 ہزار سکوں کا اعلان کیا گیا تھا، آخر پاواین کے راجا جگن ناتھ سنگھ نے مولوی احمد اللہ شاہ کو قتل کیا اور ان کا سر قلم کر کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا۔راجا جگن ناتھ کو اعلان شدہ انعام دیا گیا، اگلے دن مولوی احمد اللہ شاہ کے سر کو کوتوالی کے باہر لٹکا دیا گیا تھا۔اس سے قبل آرکیٹیکٹ ایس ایم اختر نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں مسجد کے ڈیزائن کو پیش کیا تھا۔ایس ایم اختر کے مطابق اس مسجد میں بیک وقت 2000 لوگ نماز پڑھ سکیں گے جبکہ خواتین نمازیوں کے لیے بھی یہاں ایک الگ جگہ بنائی جائے گی جبکہ مسجد کے احاطے میں ہی ایک اسپتال بھی تعمیر کیا جائے گا۔ ایک کمیونٹی کچن اور انڈو اسلامک ثقافت ریسرچ سینٹر بھی مسجد کے قریب بنایا جائے گا۔اس وقت مسجد کے نام کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیوں نے بھی جنم لیا تھا کہ مسجد کا نام کیا ہوگا؟ تاہم اب یہ خبر سامنے آئی ہے کہ مسجد کو 1857 کی جنگ آزادی کے جنگجو احمد اللہ شاہ کینام منسوب ہوگی۔یاد رہے کہ ایودھیا میں متنازع بابری مسجد کو ہندو شدت پسند گروہوں نے 6 دسمبر 1992 کو منہدم کر دیا تھا اور اس کے بعد ہی اس قطعہ زمین کی ملکیت کے حوالے سے ایک مقدمہ الہ آباد کی ہائیکورٹ میں درج کروایا گیا تھا۔28 سال کی طویل عدالتی جنگ کے بعد بھارت کی سپریم کورٹ نے اترپردیش کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد اور رام مندر کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین پر مندر کی تعمیر اور مسلمانوں کو مسجد کے لیے متبادل جگہ دینے کا حکم دیا تھا۔چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں پانچ ججوں کے ایک بینچ نے مندر مسجد کے اس تنازعے کا متفقہ طور پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ مسلم فریق کو ایودھیا کے اندر کسی نمایاں مقام پر مسجد کی تعمیر کے لیے ایک متبادل پانچ ایکڑ زمین دی جائے۔عدالت نے مرکز اور اتر پردیش کی ریاستی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس متبادل زمین کا انتظام کریں۔