اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینٹ چیئرمین انتخابات کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن میں سخت مقابلے کا امکان ہے۔ 100 ارکان پر مشتمل سینٹ میں اپوزیشن جماعتوں کو 1 ووٹ کی برتری حاصل ہوسکتی ہے۔روزنامہ جنگ میں طارق بٹ اپنے تجزیے میں لکھتے ہیں کہ مارچ میں
ہونے والے سینٹ انتخابات کے اعدادوشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے پی ٹی آئی اور ان کی اتحادی جماعتوں کے لیے یہ سخت مقابلہ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنا چیئرمین سینیٹ منتخب کرسکیں۔ کسی بھی طریقہ کار سے اگر دو ووٹ بھی ادھر ادھر ہوئے تو اپوزیشن بھی چیئرمین سینیٹ منتخب کرسکتی ہے۔ اگر حکومت اور اپوزیشن جماعتیں اپنے عددی الیکٹورل کالج کے لحاظ سے سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں تو کسی کے لیے بھی اپنا چیئرمین منتخب کرنا آسان نہیں ہوگا۔ 100 ارکان پر مشتمل سینٹ میں اپوزیشن جماعتوں کو 1 ووٹ کی برتری حاصل ہوسکتی ہے۔ لیکن خفیہ ووٹنگ میں اگر کسی رکن نے ووٹ مخالف کو دیا تو اعدادوشمار مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔ اوپن بیلٹ میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس طرح کے طریقہ کار میں بیلٹ پیپرز پر ووٹرز کا نام لکھا ہوتا ہے۔ تاہم، ووٹنگ کے طریقہ کار پر حتمی فیصلہ ابھی سپریم کورٹ سے آنا باقی ہے۔ جیسے جیسے انتخابات کا وقت قریب آتا جارہا ہے۔ اتحادی جماعتیں چیئرمین کے
عہدے کے لیے اپنے نام بھجوارہی ہیں۔ موجودہ چیئرمین سینٹ جو کہ کامیابی سے تین سال سے اس عہدے پر ہیں ان کے دوبارہ منتخب ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی حکمران اتحاد کو ان کا نام بھجوائے گی۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ یہ عہدہ بلوچستان سے کے پاس ہی رہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی اپنی جماعت سے پہلی مرتبہ کسی کو چیئرمین سینٹ بنانے کی خواہاں ہے۔ وہ یہ موقع گنوانا نہیں چاہتی۔ اس حوالے سے سیف اللہ نیازی ممکنہ امیدوار ہوسکتے ہیں۔ سینٹ انتخابات میں سب سے زیادہ مستفید ہونے والی جماعت پی ٹی آئی ہوگی جس کی وجہ پنجاب، خیبر پختون خوا اور سندھ اسمبلیوں میں ان کی پوزیشن ہے۔