اسلام آباد(آ ن لائن)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن حکومت گرانے کیلئے فوج پر دبائو ڈال رہی ہے، نواز شریف باہر بیٹھ کر فوج میں بغاوت کرانا چاہتے ہیں، نواز شریف اور زرداری خاندان ٹوٹ بٹوٹ ہیں، یہ سمجھتے ہیں مجھے بلیک میل کر لیں گے،عوام گھبرائیں نہیں ان سب کا علاج ہونیوالا ہے ، پیپلزپارٹی اور (ن)لیگ کو مشرف نے این آراو دیاتھا مگر میں اس مافیا کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکوں گا ،
کرپٹ عناصرکواین آر او دینے سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا،پاکستان میں35سال دونوں پارٹیاں اقتدار میں رہیں،’’سٹیٹس کو ‘‘کی بہت پاور ہوتی ہے، نواز شریف تو بھاگ گیا لیکن اندر تک انکے لوگ آج بھی بیٹھے ہیں۔اسلام آباد میں سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ماضی میں ملک کا وزیر دفاع اور وزیر خارجہ بیرون ملک ملازمت کر رہا تھا، ملک کا وزیر اعظم دبئی کی کمپنی کی ملازمت کر رہا تھا، یہ لوگ مل کر چوری کر رہے تھے اور ان لوگوں نے ایک دوسرے کو این آر او دیا تھا۔انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف نے ان دونوں جماعتوں کو این آر او دیا، میں بار بار کہتا ہوں کہ این آر او نہیں دوں گا، میں این آر او دے دوں گا تو زندگی آسان ہوجائے لیکن یہ پاکستان کی تباہی ہے، این آر او کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ آدھی رقم قرض اتارنے میں چلی جاتی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا اپوزیشن نے فوج کو منتخب حکومت کا تختہ الٹنے پر اکسایا ہے، کرپشن اور لوٹ مار بچانے کیلئے اداروں پر دباؤ بڑھایا گیا۔وزیراعظم عمران خان نے نواز شریف اور صف علی زرداری زرداری خاندان کو ٹوٹ بٹوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ٹوٹ بٹوٹ سمجھتے ہیں کہ مجھے بلیک میل کر لیں گے۔اس موقع پر وزیراعظم نے اداروں پر تنقید کرنے والوں سے سختی سے نمٹنے کا بھی اعلان کیا۔ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم، وزیر دفاع خود منی لانڈرنگ کر رہے تھے،
یہ خود منی لانڈرنگ کریں گے تو کسی کو نہیں روک سکیں گے، سارا گیم یہ چل رہا ہے کہ ہم ان مافیا کے آگے گھٹنے ٹیک دیں۔عمران خان نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور (ن)لیگ ملکی مفاد کے لیے نہیں ذاتی مفاد کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں، کرپٹ حکومت کی وجہ سے ملک میں مسائل جنم لیتے ہیں اور دنیا حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف نکلتی ہے، ان لوگوں نے ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر
این آر او لینے کی کوشش کی لیکن کرپٹ عناصر کو این آر او دینے سے ملک کو نقصان ہوگا۔عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ لوگ الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں لیکن ثبوت نہیں لاتے، ہم چار حلقے پر عدالت گئے اور چاروں حلقوں میں دھاندلی ثابت ہوئی۔بلوچستان سے متعلق انہوں نے کہا کہ افغان جہاد کے بعد پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی شروع ہوئی، کم آبادی اور ووٹوں کی وجہ سے ماضی کی حکومتوں نے بلوچستان پر توجہ نہیں دی، وفاق میں
جو بھی حکومت بنتی تھی قبائلی سردار ان کے ساتھ اتحاد کر لیتے تھے، ترقیاتی فنڈز قبائلی سرداروں کے ذریعے تقسیم ہوتے تھے جس سے سردار امیر ہوگئے لیکن بلوچستان کے عوام غریب رہ گئے، تاہم ہماری حکومت بلوچستان کی ترقی پر بھرپور توجہ دے رہی ہے۔صوبے میں دہشت گردی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں بریفنگ مل گئی تھی کہ بھارت ملک میں فرقہ واریت پھیلانا چاہتا ہے،
بھارت داعش کی پشت پناہی کر رہا ہے، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ پاکستان میں انتشار پھیلانا ہے، لیکن ہمارے اداروں نے مسلکی تصادم کو روکنے کے لیے بہترین کام کیا۔ٹیکس آمدنی سے متعلق وزیر اعظم نے کہا کہ ہماری ٹیکس مشینری بہت کرپٹ ہے، ملک کے 22 کروڑ عوام میں سے صرف 3 ہزار لوگ 70 فیصد ٹیکس دیتے ہیں، ٹیکس نظام کو شفاف بنانے کے لیے ٹیکنالوجی استعمال کریں گے۔بھارت سے مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے واضح کیا کہ جب تک بھارت مقبوضہ کشمیر کی پرانی حیثیت بحال نہیں کرتا تب تک اس سے مذاکرات نہیں ہوسکتے، جبکہ وقت بتائے گا کہ نریندر مودی کی حکومت بھارت کو جتنا نقصان پہنچائے گی اتنا کسی حکومت نے نہیں پہنچایا ہوگا۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 35 سال دونوں پارٹیاں اقتدار میں رہیں۔سٹیٹس کو کی بہت پاور ہوتی ہے، ہر جگہ ان کا کنکشن ہوتا ہے۔ انقلاب کا مطلب سٹیٹس کو کی تبدیلی ہے۔ پاکستان میں خونی نہیں، بیلٹ کے ذریعے انقلاب آیا۔ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف تو بھاگ گیا لیکن اندر تک ان کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ مہاتیر محمد کے جانے کے بعد نجیب نواز شریف کی طرح آگیا جس نے کرپشن شروع کر دی۔ ڈھائی سال بعد ملایشیا کیسٹیٹس کو نے مہاتی رمحمد کی حکومت کو گرا دیا تھا۔
سٹیٹس کو پہلے دن سے مجھے گرانے میں لگی ہے۔ اسے پتا ہے کہ حکومت نے پانچ سال پورے کر لیے تو ان کی دکانیں بند ہو جائیں گی۔عمران خان نے کہا کہ چھوٹا سا طبقہ جب سارے وسائل لوٹ لے تو قوم نہیں بن سکتی،کرپٹ حکومت ہو تو ملک میں غربت بڑھتی ہے۔ سابقہ دونوں حکومتیں مل کر پاکستان میں چوری کر رہی تھیں۔ پہلے ان دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو این آر او دیا ہوا تھا۔ آدھا ٹیکس ان کے لیے ہوئے قرضوں کی قسطوں میں چلا جاتا ہے۔