کراچی(این این آئی) پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ کپاس کی پیداوار میں کمی سے ملک کو کم از کم دس ارب ڈالر کا نقصان ہو گا۔کپاس کی حقیقی پیداوار ایک کروڑ پچاس لاکھ گانٹھ کے ہدف کے مقابلہ میں صرف پچاس لاکھ گانٹھ ہے جو
ضرورت سے بہت کم ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صنعتی شعبہ ٹیکسٹائل کو رواں رکھنے کے لئے کم از کم دس ارب ڈالر کی کپاس درامد کرنا ہو گی جبکہ مہنگی کپاس سے پیداوار مہنگی اور برامدات بھی متاثر ہونگی۔ ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ ٹیکسٹائل کی صنعت کو رواں رکھنے کے لئے کپاس کی درامد پر عائد تمام ٹیکس اور ڈیوٹیاں ختم کی جائیں اور مقامی پیداوار کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔انھوں نے کہا کہ ملک میں شوگر ملز ضرورت سے زیادہ ہیں اس لئے نئی شوگر ملوں کے لائسنس جاری نہ کئے جائیں کپاس کے زیر کاشت رقبہ میں کمی اور اسکے بجائے گنا کاشت کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔انھوں نے کہا کہ کرونا وائرس سے قبل توانائی کی عالمی مارکیٹ مستحکم تھی تاہم اب ڈیمانڈ کی کمی کی وجہ سے یہ شعبہ بحران کا شکار ہے جسکی وجہ سے تیل اور گیس کی قیمتیں بہت کم ہیں مگر اب بھی سابقہ حکومت کے مقابلہ میں مہنگی گیس خریدی جا رہی ہے جس سے صنعتی شعبہ متاثر ہو گا