اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاک فوج اور ریلوے کے اعلی افسروں پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی دوسرے روز کی انکوائری کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ جائے حادثہ سمیت سانگلہ ہل ، وزیر آباد ریلوے سیکشن کا ٹریک نارمل حالت میں نہیں تھا۔ اس سیکشن پر ٹرین کی رفتار کی زیادہ سے زیادہ حد 30 کلو میٹر فی گھنٹہ مقرر تھی۔ اس حقیقت سے لاعلم انجن ڈرائیور حادثے سے پہلے 65 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹرین بھگا رہا تھا۔ تفصیلات کے مطابق گوجرانوالہ کے قریب ٹرین حادثے کی تحقیقات کرنیوالی پاک فوج اور ریلوے کے اعلی حکام پر مشتمل جائینٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے دوسرے روز ریلوے ہیڈ کوارٹرز لاہور میں بھی تحقیقات جاری رکھیں جن کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ سانگلہ ہل، وزیر آباد ریلوے سیکشن کے ٹریک پر گزشتہ کئی برسوں سے نارمل سپیڈ 90 کلو میٹر فی گھنٹہ کی بجائے ٹریک ان فٹ ہونے کے باعث حادثے کا شکار ہونیوالے انجن آر جی 2400 کے ساتھ گزرنے پر زیادہ سے زیادہ حد رفتار 30 کلو میٹر فی گھنٹہ مقرر تھی جس کا شہید انجن ڈرائیور ریاض کو علم ہی نہیں تھا اور حادثے سے پہلے ٹرین کی رفتار 65 کلو میٹر تھی۔ تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ٹرین کا اور سپیڈ ہونا حادثے کا حتمی سبب نہیں بلکہ ان فٹ ٹریک پر حادثے کے بعد تین فش پلیٹیں بھی اکھڑی پائی گئیں جبکہ کئی جگہ پر فش پلیٹوں کے نٹ اور بولٹس یا تو سرے سے غائب تھے یا ڈھیلے پائے گئے جن کو مشترکہ ٹیم کی انسپکشن سے پہلے ٹریک پر دوبارہ فٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے علاوہ تفتیش نے یہ رخ بھی اختیار کیا ہے کہ امریکی ساخت کا اڑتالیس سال پرانا انجن پندرہ سال پہلے بحال اور مرمت کیا گیا تھا اس میں بھی خرابی ہو سکتی ہے ۔ اس اہم نکتے کی انکوائری کے لئے اتوار کو مشترکہ ٹیم ایک بار پھر جائے حادثہ پر پہنچے گی۔ ریلوے انتظامیہ کو انجن اتوار کی صبح تک نہر سے نکالنے کا حکم دیدیا گیا ہے۔