پچھلے چند ہزار برسوں میں انسان نے ناقابلِ یقین حد تک ترقی کی ہے۔ ٹیکنالوجی میں بے پناہ پیش رفت نے تمام سیارے کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تمام فطری مظاہر انسان کی مٹھی میں آ گئے ہیں اور بظاہر وہ وقت دور نہیں کہ انسان اپنی عقل و فہم کے گھوڑے پر سوار ہو کر کائنات کو تسخیر کر لے۔ لیکن بعض قنوطیت پسند دانش وروں کا خیال ہے کہ یہ تمام تر شان و شوکت، یہ جاہ و جلال لمحوں کے اندر اندر تلپٹ ہو سکتا ہے۔ ان میں سے چند عوامل کا جائزہ ان صفحات پر پیش کیا جا رہا ہے:
1
شہابِ ثاقب کا زمین سے ٹکراو
زمین کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں وقتاً فوقتاً شہابِ ثاقب کے ٹکراو ¿ سے عظیم پیمانے پر تباہیاں پھیلتی رہی ہیں۔ 1908ءمیں صرف 200 فٹ چوڑے شہابِ ثاقب نے روس کے علاقے سائبیریا میں 13 سو کلومیٹر رقبے پر پھیلے جنگل کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا تھا۔سائنس دان کہتے ہیں کہ اس سے بھی بہت بڑے شہابِ ثاقب تقریباً ہر ڈھائی لاکھ سال بعد زمین سے ٹکراتے رہتے ہیں۔ایک نظریے کے مطابق ایسے ہی ایک پانچ میل طویل شہابیے نے ڈائنو ساروں کا خاتمہ کر ڈالا تھا۔پلوٹو کے مدار سےپرے واقع کائپر کی پٹی (Kuiper belt) میں ایک لاکھ سے زیادہ ایسے اجسام موجود ہیں جن کا قطر 50 میل سے زیادہ ہے۔اگر ان میں سے کسی ایک برف گولے نے زمین کا رخ کرنے کی ٹھان لی تو یہاں صرف لال بیگ باقی بچیں گے۔
2
آوارہ بلیک ہول
جیسا کہ آپ جانتے ہیں، بلیک ہول ایک ایسا جسم ہے جو ہر چیز اپنے اندرجذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کی کششِ ثقل اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کوئی شے جو اس کے دائرہاثر میں آ جائے، باہر نہیں نکل سکتی۔بلیک ہول کا نظریہ کتنا ہی محیرالعقول کیوں نہ ہو، سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کائنات میں بلیک ہول وافر مقدار میں موجود ہیں۔ایک اندازے کے مطابق خود ہماری کہشکشاں کے اندر ایک کروڑ سے زیادہ بلیک ہول پائے جاتے ہیں۔ اور زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے کوئی بلیک ہول ہمارے نظامِ شمسی کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں طاقت ور دوربینوں کے باوجود بھی اس کا علم نہیں ہو سکے گا، کیوں کہ بلیک ہول کو آخر کسی وجہ سے بلیک ہول کہا جاتا ہے۔ اور وہ وجہ یہ ہے کہ اس کی کششِ ثقل اتنی شدید ہوتی ہے کہ روشنی کو بھی باہر نکلنے نہیں دیتی۔اور ویسے بھی تباہی پیدا کرنے کے لیے کسی بلیک ہول کا زمین کے بالکل پاس آنا بھی ضروری نہیں ہے، اگر کوئی بلیک ہول نظامِ شمسی کے قریب سے بھی گزرے تو اس کی بے پناہ کششِ ثقل زمین سمیت دوسرے تمام سیاروں کے مداروں کو تہہ و بالا کر کے رکھ دے گی جس سے زمین یا تو سورج سے ٹکرا جائے گی، یا پھر سورج کی کشش سے آزاد ہو کر خلا کی یخ بستہ تاریکیوں میں گم ہو سکتی ہے۔
3
سورج کے عظیم شعلے
سورج جامدو غیر تغیرپذیر ستارہ نہیں ہے بلکہ اس کے اندر زبردست موسمی طوفان آتے رہتے ہیں اور اس کی کارکردگی اتارچڑھاو ¿ کا شکار رہتی ہے۔ سورج کے بعض شعلوں (flares) سے نکلے ہوئے تیز رفتار ذرات زمین تک پہنچتے ہیں لیکن زمین کی فضا اور مقناطیسی میدان انھیں سطح تک نہیں پہنچنے دیتے۔لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ سورج ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔ ماہرینِ فلکیات کا مشاہدہ ہے کہ سورج کی طرح کے دوسرے ستارے بعض اوقات یک لخت 20 گنا زیادہ روشن ہو جاتے ہیں۔ اگر سورج کے ساتھ کبھی ایسا ہوا تو اس سے نکلنے والے شعلے زمین کی سطح کو جلا کر راکھ کر دیں گے۔
4
خلائی مخلوق کا حملہ
اس وقت تک نظامِ شمسی سے باہر 217 سیارے دریافت ہو چکے ہیں، اور ہر مہینے اس فہرست میں دو تین سیاروں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ جب ہم ذہن میں رکھیں کہ ہماری کہکشاں میں سورج جیسے ایک کھرب ستارے پائے جاتے ہیں، تو اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ نکلتا ہے کہ کہکشاں نظامِ شمسی جیسے دوسرے نظاموں اور سیاروں سے اٹی پڑی ہے۔اب لاکھ سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کے سب سیارے بنجر ہیں اور ان میں سے کسی پر زندگی نہیں پائی جاتی؟ بہت سے سائنس دانوں کا نظریہ ہے کہ نہ صرف یہ ممکن ہے ان میں سے کسی نہ کسی سیارے پر زندگی موجود ہو، بلکہ عین ممکن ہے کہ وہاں انسان سے زیادہ ذہین مخلوق بھی آباد ہو۔اگر اس مخلوق نے کسی وقت زمین کا رخ کیا اور اس کے وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو ہمارے پاس ان سے نمٹنے کا کوئی طریقہ نہیں ہو گا، کیوں کہ ہم ان کے ہتھیاروں اور طریقہ کار کے بارے میں یکسر لاعلم ہیں۔
5
سائنسی تجربات
اس سال مئی سے سوئٹزرلینڈ اور فرانس کی سرحد پر واقع ایل ایچ سی نامی تجربہ گاہ کام کرنا شروع کر دے گی۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ایل ایچ سی کے اندرایٹمی ذرات کے ٹکراو ¿ سے اتنی توانائی پیدا ہو سکتی ہے جس سے بلیک ہول یا پھر عجیب قسم کے ذرات (strangelets) وجود میں آ سکتے ہیں۔اگرچہ اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بلیک ہول بہت ننھے منے ہوں گے اور خود بہ خود تحلیل ہو جائیں گے، لیکن بعض حلقوں کو خدشہ ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو ایک چھوٹا بلیک ہول بھی پوری دنیا کو ہڑپ کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگائے گا۔ جب کہ سٹرینج لیٹس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ عام مادے کے ساتھ مل کر چَین ری ایکشن کی مدد سے اسے بھی اپنی طرح کا سٹرینج لیٹ بنانے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں۔ صرف ایک سٹرینج لیٹ چشم زدن میں پوری دنیا کے مادے کو تبدیل کر سکتا ہے