لاہور(این این آئی) پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمرزمان کائرہ نے کہا ہے کہ این ایف سی اور ٹھارہویں ترمیم سے وفاق مضبوط ہوا ، قوم پرستی اور علیحدگی کی تحریکیں کمزور ہوئیں ، وسائل کی تقسیم نہیں وسائل جمع کرنا اصل مسئلہ ہے ،سندھ میں گورنر راج لگانے کا شوق پورا کر کے دیکھ لیں ،نئے انتخابات کا مطالبہ غیر جمہوری نہیں ہے ،حکومت ناکام ہو جائے تو کیا کیا جائے ؟ ،دوبارہ انتخابات یا پھر ان ہائوس تبدیلی کے علاہ کوئی تیسرا راستہ نہیں ہوتا ۔
ان خیالات کااظہارانہوںنے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ قمرزمان کائرہ نے کہاکہ این ایف سی اور ٹھارہویں ترمیم سے وفاق مضبوط ہوا ، قوم پرستی اور علیحدگی کی تحریکیں کمزور ہوئیں ، وسائل کی تقسیم نہیں وسائل جمع کرنا اصل مسئلہ ہے ۔ اختیارات اور وسائل تقسیم کرنے سے وفاق کمزور نہیں مضبوط ہوا ہے ،1940 کی قرارداد اور قائد اعظم کے صوبوں سے کئے گئے وعدے پورے نہ کرنے سے مل ٹوٹا ، ہم نے 1973ے کے آئین اور پھر اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے بانیان کے وعدے پورے کئے ۔ انہوںنے کہاکہ این ایف سی میں صوبوں کا حصہ بڑھایا تو جا سکتا ہے مگر کم نہیں ہو سکتا ۔ ہم صوبوں کے وسائل کم کرنے کی ہر کوشش کو روکیں گے ، اگر ہم حکومت کو روکنے میں ناکام ہوئے تو اقتدار میں آکر صوبوں کو مالی وسائل واپس دیں گے ۔ فیصل آباد ڈویژن کا اجلاس تھا جہاں کورونا کی وجہ سے حالات پریشان کن ہیں ۔کورونا کی وبا پھیلی رہی ہے تو کاروبار کھول دئے گئے ہیں ۔اللہ کرے ساری دنیا غلط اور خان صاحب درست ثابت ہوں کہ کہ کورونا نہ پھیلے مگر ان کے وزیر وزارت سائنس کہہ رہی ہے کہ وبا تیزی سے پھیلے گی ۔انہوںنے کہاکہ لاک ڈائون جیسے کھولا گیا اس سے حالات سنگین ہو جائیں گے ۔ابھی ٹرانسپورٹ کھول رہے ہیں وہ تو ٹرانسپورٹرز آڑے ہوئے ہیں ۔حکومت سب کھول کر لوگوں کو کہتی ہے کہ گھروں میں رہو ۔لوگوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ بھی احتیاط کریں ۔انہوںنے کہاکہ پہلے سینکڑوں تھے اب ہزاروں مریض آ رہے ہیں ۔
ٹرانسپورٹ کھل رہی ہے ٹرینیں کھل رہی ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ لوگ سفر نہ کریں ،ان کے اتحادی ان کی مخالفت کر رہے ہیں ۔سندھ میں ان کی جماعت وفاقی حکومت کے کہنے پر حملہ آور ہے ۔کبھی گورنر راج کبھی فنانشل ایمرجنسی لگانے کی بات ہو رہی ہے اگر یہی معیار ہے تو پھر تو پنجاب ہر سب کے سب آئینی شقیں نافذ ہوں ۔این ڈی ایم اے سے پوچھا جا رہا ہے وہ کیا کر رہا ہے ۔پنجاب میں لوگ قرنطینہ مراکز سے احتجاج کر رہے ہے۔ حکومت 1240 ارب کے فراڈ پیکیج سے کتنا خرچ کیا ہے ،
بتائیں مزدوروں کو کیا دیا بتائیں گندم کی خریداری کے علاہ کیا گیا ۔این ایف سی کو کم کرنے کی بات ہو رہی ہے ،این ایف سی میں سنجیدہ مسائل سامنے آئے ہیں ۔وزیراعظم نے اپنا مشیر بنا لیا ہے ، جو کہ نہیں بنایا جا سکتا ۔انہوںنے کہاکہ بلوچستان کیلئے جاوید جبار کو مقرر کیا ، دوسرے صوبے کے شہری کو کیسے لگایا جا سکتا ہے ؟ 2019 میں پاکستان کرپشن میں 217 پر تھا اس شفاف حکومت کی وجہ سے 2019 پر آ گیا ہے ۔جمہوریت میں پاکستان 108 سے 112 پر چلے گئے ۔صحافت میں آپ نے حدود عبور کر لیں اس لئے آپ کو نمبر ہی نہیں ملا ،
صنفی مساوات میں 151 نمبر پر ا گئے ہیں ،کہہ رہے ہیں کہ این ایف سی کو ریوائز کرنا ہے ،ہم بار بار خبردار کر رہے ہیں کہ یہ نہیں ہو سکتا ۔صوبوں کے وسائل بڑھانا ہوں ان میں کمی نہیں سکتی۔فاق صوبوں کو نہیں صوبے وفاق کو وسائل دے رہے ہیں ،ہم 2010 میں روینیو کو 2120 ارب ، مکان لیگ نون کے 3850 ارب پر لے گئے ،اب تک روینیو 6 ہزار ارب ہونا چاہئے تھا ، خان صاحب نے تو 8 ہزار کا نعرا لگایا تھا ،آج 6 ہزار کا حدف پورا کرتے تو یہ ضرورت نہ پڑتی ،یہ کورونا سے قبل اپنے اہداف 3 بار ریوائز کر چکے ہیں ،یہ جھوٹ اتنا بولتے ہیں کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگے ۔
انہوں نے کہاکہ اس وقت ٹڈی دل نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے چکا ہے ۔سندھ سے ہوتا بلوچستان اور پنجاب تک یلغار کو چکی ہے جب یہ حکومت آئی تو تب سے ہی پی پی چیخ رہی ہے ۔آصف زرداری نے قومی اسمبلی میں بولے مگر یہ سوتے رہے اب جب فوڈ سکیورٹی کا معاملہ بنا تو یہ کچھ متحرک ہوئے ان کو ہر فیصلے میں کہیں کے اشارے کی ضرورت ہوتی ہے ،یہ بی بی فیڈںگ اور سپون فیڈنگ اب نہیں چلے گی ۔انہوںنے کہاکہ سندھ میں گورنر راج لگانے کا شوق پورا کر کے دیکھ لیں ۔نئے انتخابات کا مطالبہ غیر جمہوری نہیں ہے ۔حکومت ناکام ہو جائے تو کیا کیا جائے ؟ ،دوبارہ انتخابات یا پھر ان ہائوس تبدیلی کے علاہ کوئی تیسرا راستہ نہیں ہوتا ،اس سے دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا کرنا یہ تو بلدیاتی ادارے کا انتخاب کروا نہیں سکتے کروا کر دیکھ لیں ۔
انہوں نے کہاکہ حکومت کا کوئی ویژن نہیں ہے ، جو ویژن دینا ہے ورلڈ اکنامک فورم پر جا کر بتا دیں اپنا ویژن ۔زرداری صاحب کے متعلق خبریں جان بوجھ کر چلائی جا رہی ہیں ۔آصف زرداری سے میری آدھا گھنٹہ بات ہوئی ہر اشو پر بات ہوئی ،زرداری صاحب بیمار تھے جب جیل میں تھے ، مگر اب پہلے سے حالت بہتر ہے ۔خداناخواستہ کوئی خبر ہو تو کیوں چھپائی جاتی ،ہم نے کبھی کوئی خبر چھپائی ہے جو اب چھپائیں گے ۔حکومت کی ایجنسیاں تو ہم ہر کڑی نظر رکھتی ہیں ایسی خبر ہوتی تو کیسے چھپ سکتی تھی ۔عدالت کا احترام مگر عدالت کو انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے ۔اب لاک ڈائون ختم کرنے کا نقصان ہوگا تو اس کا جوابدہ کون ہوگا ۔ماضی میں عدالتوں کے ایسے فیصلوں کا نقصان ہوا عدالت کو نظر ثانی کرنی چاہئے ،اگر آغاز میں سخت لاک ڈائون کرتے اور ٹیسٹ تیز کر دیتے تو۔انہوںنے آفریدی اچھے آدمی ہیں وہ فلاح کے کام کریں ان کے بس کی بات نہیں ۔