اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )سینئر کالم نگار ہارون الرشید اپنے کالم ’’آنے والا کل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔آنے والے کل میں پاکستان کے لیے کیا لکھا ہے، یہ ابھی پردہ ء غیب میں ہے اور غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ سیاست میں عمران خان کرپشن کے خاتمہ کا عزم لے کر نہیں آئے تھے۔یہ ان کا اوّلین ہدف نہیں تھا۔ پارٹی بنانے سے کئی برس پہلے ایک ذاتی دوست نے جب انہیں سیاست میں آنے کا مشورہ دیا
تو جواب یہ تھا: اگر آگیا تو سب گیدڑوں کو بھگا دوں گا۔ بہت سے دوسرے لوگوں کا خیال بھی یہی تھا کہ عمران خاں جنگل کا شیر ثابت ہوں گے اورشغالِ نیم شب سے ملک کو نجات دلا دیں گے۔ اچھی حکمرانی کا خواب!خلقِ خدا کو کھینچ لانے کے لیے کرپشن کے خاتمے کا نعرہ بعد میں تراشا گیا۔ ابتدا میں منصوبہ یہ تھا کہ ملک بھر سے نیک نام سیاسی کارکن جمع کیے جائیں گے۔ ان کی تربیت کی جائے گی۔ قائدِ اعظمؒ کے بعد سے چلی آتی درماندگی دھل جائے گی۔ قوم کی زخمی پیٹھ پر مرہم لگا دیا جائے گا۔ ترجیحات مرتب ہوں گی اور قافلہ چل نکلے گا۔ اندھیری شب میں لے کے نکلوں گا میں اپنے درماندہ کارواں کو شرر فشاں ہو گی آہ میری، نفس میرا شعلہ بار ہو گا نواز شریف کے تجربے سے اکتائے ہوئے جنرل حمید گل کا منصوبہ یہ تھا: اللہ کے بندوں سے ہمیشہ محبت اور ہمیشہ ایثار کرنیوالے محنتی، مرتب اور مہذب حکیم سعید، خلق خدا کیلئے وقف ہو جانیوالے عبد الستار ایدھی اور تکبیر کے شہید ایڈیٹر محمد صلاح الدین کو قائل کیا جائے۔لاہور کے موچی دروازے میں ایک جلسہ ء عام ہو۔ وہ خود بھی شامل ہوں۔۔۔اور ان کی شمولیت گہرے اثرات مرتب کرتی۔ قائدِ اعظمؒ اور اقبالؔ سے عقیدت رکھنے والے روایتی دائیں بازو میں جنرل صاحب کی مقبولیت بہت تھی۔ کوئی اخبار نویس ان دنوں سوال کرتا تو انکسار کے
ساتھ رسولِ اکرمؐ کا قولِ مبارک دہرایا کرتے۔ مفہوم یہ ہے: اللہ جب کسی پر مہربان تو دلوں میں محبت ڈال دیتا ہے۔ عمل سے زیادہ جنرل کی ذہانت گفتگو میں جھلکتی۔ اصلاً وہ ایک رومان پسند تھے۔ ملک سے محبت کرنے اور عام آدمی کا درد رکھنے والے۔ سیاسی حرکیات کا کچھ ایسا گہرا ادراک نہ تھا۔ بات کرنے کا سلیقہ غیر معمولی۔ ایک انسان دوست کا ہمیشہ برقرار رہنے والا شیریں لہجہ۔ ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق ایک لاکھ آدمی موچی دروازے سے اٹھیں اور عمران خاں کے گھر جا پہنچیں۔ کچھ دیر وہ نعرہ زن رہیں، حتیٰ کہ وہ انکی بات مان لے۔ صلاح الدین قائل ہو گئے۔ عبد الستار ایدھی بدک گئے۔ ان سے کسی نے کہہ دیا کہ ایجنسیوں کا یہ منصوبہ ہے۔ سادہ الفاظ میں آئی ایس آئی کا۔ آئی ایس آئی کا منصوبہ یہ ہرگز نہیں تھا بلکہ فوج والے جنرل سے قدرے بے زار تھے۔ وہ کہا کرتے: سبکدوش ہونے کے
باوجود یہ آدمی وردی اتارنے پر آمادہ نہیں۔ ایدھی سے رہ و رسم رکھنے والے ترقی پسندوں نے، ملّا کی طرح جو کہانیاں گھڑنے کے ماہرہوتے ہیں انہیں ڈرا دیا۔ بھاگ کر وہ لندن چلے گئے اور بیان داغا کہ ایجنسیاں انہیں قتل کرانے کے درپے ہیں۔سپنا بیچ ہی میں رہ گیا ۔ لیکن عمران کے دل میں قیادت کی آرزو اب جاگ اٹھی تھی۔ قبولیتِ عامہ کی تمنا اور اقتدار کا خواب۔ ایک بار یہ سپنا آدمی کو گرفت میں لے لے توقبر کی مٹی تک
ساتھ رہتا ہے: کثرت کی خواہش نے تمہیں ہلاک کر ڈالا،حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔ دولت سے زیادہ قبولیت اور اقتدار کی آرزو تباہ کن ہوتی ہے۔ زیادہ گہرے ادراک والوں کو یقین تھا کہ وہ آخر کار ناکام ہو گا۔ اس لیے کہ سیاسی حرکیات کو سمجھتا نہیں۔ مثلاً جاوید غامدی کہا کرتے: وہ ایک بچّہ ہی تو ہے۔ مثلاً گیلپ کے اعجاز شفیع گیلانی کی رائے یہ تھی کہ وہ اپنا وقت ضائع کرے گا اور دوسروں کا بھی۔
ان سب لوگوں کے اندازے درست ثابت ہوئے اور مستقبل ان کے تجزیے پر اپنی مہر ثبت کرے گا۔ اب یہ آشکار ہے کہ عمران خان کے مقدر میں کوئی کارنامہ نہیں۔ وجوہات واضح ہیں۔ اس کا ذہن سیاسی نہیں۔ موزوں مشیروں کا انتخاب نہیں کر سکتا۔ ترجیحات طے کرنے کا سلیقہ ہی نہیں۔ اپنی برگزیدگی کا احساس شدید ہے۔ اکتوبر2012ء میں، اس کی کتاب ’’میں اور میرا پاکستان‘‘ کی تقریبِ رونمائی کے ہنگام کسی بات پہ
جھلّا کر میں نے کہا: کیا تم مہاتیر محمد یا قائدِ اعظمؒ ہو؟ فرمایا: میں تمہیں بن کر دکھاؤں گا۔ قائدِ اعظمؒ اور مہاتیر تو کیا، وہ عمران بھی نہیں رہا۔ ڈرگ ریگولیرٹی اتھارٹی پر مسلط مافیا کا محاسبہ کر سکتا ہے اور نہ خون آشام بجلی کمپنیوں کا۔ ہاں نواز شریف کو رلا سکتا ہے اور جہانگیر ترین کو بھی۔ خلقِ خدا کو پوچھنے کا حق ہے کہ پھر تم اور تمہارے جیسے کچھ اور لوگ پندرہ سولہ برس جھک کیوں مارتے رہے۔
اس لیے کہ بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداریوں اور نواز شریفوں سے ہم تنگ آچکے تھے۔ چمن کے رنگ و بو نے اس قدر دھوکے دیئے ہم کو کہ ذوق گل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی خان میں ہم لوگ عزمِ صمیم پاتے۔ حسنِ ظن یہ تھا کہ جس طرح کرکٹ، شوکت خانم ہسپتال اور نمل کالج کو اس نے اداروں میں ڈھالنے کی کوشش کی، سیاسی پارٹی کو بھی بالاخر انسٹی ٹیوشن بنا دے گا۔ ہم بھول گئے کہ
ہر آدمی کی محدودات ہوتی ہیں۔ کچھ کارنامے وہ انجام دے سکتا ہے اور کچھ دوسرے کام کرنے کا اہل نہیں ہوتا۔ کرکٹ میں ایک بنی بنائی ٹیم اسے ملی تھی، بہترین طورپرجس سے اس نے کام لیا۔ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی۔خود دوسروں سے زیادہ محنت کی اور عزم برقرار رکھا۔ شوکت خانم کی داستان بھی یہی ہے۔حوصلہ شکنی کرنے والے اگرچہ بہت تھے مگر کچھ مخلص بھی ملے۔ مثلاً وہ گم نام صوفی بشیر احمد
جو ہمت بڑھانے ہمیشہ اس کے پاس آیا کرتے۔ نمل کالج میں بھی یہی ہوا۔ اتفاق سے وہ بریڈ فورڈ یونیورسٹی کا وائس چانسلر منتخب کر لیا گیا۔ باقی تاریخ ہے،ماہرین کا ہنر۔ سیاست اس کے بس کی نہیں۔ وہ ایک سادہ سی بات بھی نہیں سمجھتا کہ لیڈر قوم کا باپ ہوتا ہے۔ اس کی اولاد میں کچھ اگر بگڑے بھی ہوں تو ان کی اصلاح کرتا ہے، انتقام نہیں لیتا۔ جیسا کہ اللہ کی آخری کتاب کہتی ہے: زندگی قصاص میں ہے۔ جتنا قصور،
اتنی سزا اور سزا کا تعین حریف نہیں، عدالت کیا کرتی ہے یا ثالث۔ ذاتی معاملات میں تلقین یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، معاف کر دیا کرو۔ معاف کرنے کا ظرف وہ نہیں رکھتا اور چیخ کر کہتا ہے: میں تمہیں رلاؤں گا۔ دشمنوں ہی کو نہیں، دوستوں کو بھی، جو اس کی اطاعت نہ کریں۔ جہانگیر ترین، سبطین خان، حتیٰ کہ علیم خان بھی، جس سے واحد شکوہ یہ تھا کہ عثمان بزدار کو وہ ایک عظیم لیڈر نہیں مانتے۔
اب ہم اللہ کی آخری کتاب کی طرف پلٹتے ہیں۔ وہ کہتی ہے: بعض کو بعض کے ذریعے دفع کر دیا جاتا ہے۔ شریفوں اور زرداریوں کو اس نے پست کر دیا۔ ختم نہیں لیکن بہت کمزور۔ اب وہ لوٹ کر نہیں آسکتے۔ آئیں تو زیادہ دن ٹھہر نہیں سکتے۔ آنے والے کل میں پاکستان کے مقدر میں کیا لکھا ہے، یہ ابھی پردہ ء غیب میں ہے اور غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔