جمعہ‬‮ ، 24 جنوری‬‮ 2025 

ڈاکٹر فرقان کے انتقال کے معاملے پر انکوائری رپورٹ مکمل کر لی گئی کس ڈاکٹر کو غیر ذمہ داری کا مرتکب ٹھہرا دیا گیا ، رپورٹ وزیراعلی کو پیش 

datetime 6  مئی‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی (این این آئی)سندھ حکومت کی جانب سے ڈاکٹر فرقان الحق کی موت کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں سول اسپتال کے ایک میڈیکل افسر کے غلط اندازے کو ڈاکٹر کی موت کی وجہ قرار دیا۔ڈاکٹر فرقان کی وفات کے بعد پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے الزام عائد کیا تھا کہ متوفی کو وینٹی لیٹر کی ضرورت تھی لیکن شہر کے کئی ہسپتالوں میں

جانے کے باوجود انہیں یہ سہولت نہیں ملی۔اس دعوے پر حکومت سندھ نے مذکورہ معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنا کر اسے 24 گھنٹے میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔چنانچہ کمیٹی کی رپورٹ بدھ کی صبح جاری کردی گئی جس کے مطابق سول ہسپتال کراچی میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر جس نے مریض کا معائنہ کیا تھا غفلت دکھائی اور آئی سی یو میں 9 بیڈز موجود ہونے کے باوجود انہیں ایڈمٹ نہیں کیا۔تاہم رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ مریض کسی بھی ہسپتال میں داخل ہونے سے گریزاں تھے۔ڈاکٹر فرقان کی موت کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ انہیں یکم مئی کو وائرس کی تشخیص ہوئی تھی جس کے بعد سندھ ہیلتھ ڈپارٹمنٹ ایک ریپڈ ریسپانس ٹیم 2 مئی تک مریض سے رابطے میں تھی۔3 مئی کو ڈاکٹر فرقان کی طبیعت بگڑ گئی اور ان کی بھتیجی نے انہیں انڈس ہسپتال آنے کا مشورہ دیا تاہم اس کے نظر انداز کرتے ہوئے ڈاکٹر اپنے ساتھی ڈاکٹر عامر کے مشورے پر سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (ایس آئی یو ٹی) میں داخلے کا انتظام کر کے وہاں جانے کا ارادہ کیا۔تاہم جب امن ایمبولینس پہنچی تو وہ ڈاکٹر فرقان الحق کو ایس آئی یو ٹی کے بجائے سول ہسپتال لے گئی۔سول ہسپتال میں ڈاکٹر فرقان کو ایمرجنسی عملے سے کورونا وائرس کنٹرول روم میں منتقل کیا جہاں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر جگدیش نے ان کا معائنہ کیا۔تاہم ڈاکٹر جگدیش نے انہیں داخل کرنے کے بجائے متعلقہ ڈاکٹر سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا جس نے ان کے لیے بیڈ کا انتظام کیا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ مریض ایمبولینس میں بیٹھ کر کسی اور ہسپتال جانے کے بجائے گھر چلے گئے جہاں پہنچ کر ان کی حالت بگڑ گئی جس پر انہیں ٹرائی میکس

ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ نجی طور پر کام کرتے تھے۔ٹرائی میکس میں جس ڈاکٹر نے ان کا معائنہ کیا ان کی رائے یہ تھی کہ ڈاکٹر فرقان کو خصوصی توجہ اور ممکنہ طور پی وینٹی لیشن کی ضرورت ہے، جس پر وہ تنگ آ کر ایک مرتبہ پھر گھر چلے گئے۔رپورٹ کے مطابق مریض کے اہلِ خانہ سے بات نہ ہوسکی لیکن اس کے بعد ڈاکٹر فرقان کو ڈا میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال (اوجھا) کیمپس لے جایا گیا جہاں ان کی

مردہ حالت میں آمد کا اعلان کیا گیا۔رپورٹ میں کمیٹی کا نقطہ نظر یہ تھا کہ رابطے کا شدید فقدان تھا، ڈاکٹر جگدیش کو انہیں سول ہسپتال میں داخل کرنا چاہیے تھا کیوں کہ ان کی حالت ایسی نہیں تھی کہ اوجھا یا کسی اور ہسپتال جاتے۔رپورٹ میں ڈاکٹر جگدیش کے خلاف ان کے غلط اندازے پر انظباتی کارروائی کی سفارش کی گئی جس کی وجہ سے مریض کی جان گئی۔دوسری جانب یہ دعوی کہ سندھ حکومت کو وینٹی لیٹر کی

کمی کا سامنا ہے اسے صوبائی وزیر صحت عذرا پیچوہو کی میڈیا کووآرڈینیٹر نے پہلے ہواضح کردیا تھا کہ سول اور جناح ہسپتال میں وینٹیلیٹرز اور بستر موجود ہیں۔خیال رہے کہ 4 مئی کو پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے بتایا تھا کہ حال ہی میں کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز سے ریٹائر ہونے والے ڈاکٹر فرقان کورونا وائرس سے انتقال کر گئے کیونکہ شہر کے کئی ہسپتالوں کا

دورہ کرنے کے باوجود انہیں آئسولیشن وارڈ اور وینٹی لیٹر کی سہولت میسر نہ آ سکی۔ڈاکٹر فرقان کراچی میں کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے تیسرے ڈاکٹر تھے تاہم وہ کورونا مریضوں کا علاج نہیں کررہے تھے۔ڈاکٹر قیصر سجاد نے بتایا کہ ڈاکٹر فرقان دل کے مریض تھے اور وائرس کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد انہوں نے خود کو گھر پر آئسولیٹ کر لیا تھا۔ڈاکٹر قیصر نے بتایا کہ ہفتے کو ڈاکٹر فرقان کو

سانس لینے میں شدید دشواری پیش آرہی تھی اور اتوار کو انہوں نے ہسپتال کے آئسولیشن وارڈ میں داخل ہونے کی بہت کوشش کی اور اس سلسلے میں چند ہسپتالوں کا دورہ بھی کیا لیکن انہیں کہیں داخل نہیں کیا گیا۔پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتوار کو پورا دن مختلف ہسپتالوں کے چکر لگانے کے باوجود ڈاکٹر فرقان کو کہیں بھی وینٹی لیٹر کی سہولت میسر نہ آئی۔

ڈاکٹر قیصر نے بتایا کہ ڈاکٹر فرقان نے اپنی آواز موبائل پر ریکارڈ کر لی تھی جس میں وہ ایمبولینس ڈرائیور کو وینٹی لیٹر کا بندوبست کرنے کا کہہ رہے تھے لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا اور ڈاکٹر فرقان اتوار کی شام چار بجے چل بسے۔یاد رہے کہ ڈاکٹر فرقان شہر قائد میں کورونا کا شکار ہو کر جاں بحق ہونے والے تیسرے ڈاکٹر ہیں جہاں ان سے قبل ڈاکٹر عبدالقادر سومرو اور ڈاکٹر زبیدہ ستار بھی وائرس کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



اسی طرح


بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…