اسلام آباد(آن لائن)وزارت صنعت وپیداوار نے ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کی پیداوار سے متعلق وفاقی کابینہ اور قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلوں میں رد وبدل کرکے ایک بار پھر مقامی گاڑیاں بنانے والوں کو فائدہ پہنچا دیا ہے، وفاقی کابینہ اور قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے وزارت ماحولیات کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے ملک میں الیکٹرک گاڑیاں برآمد کرنے اور بتدریج پاکستان میں ہی ان کے پلانٹ لگانے کی منظوری دی تھی
لیکن وزارت صنعت وپیداوار میں بیٹھے ہوئے بااثر لوگوں نے وفاقی کابینہ کے اس فیصلے کو لفظ”ٹیکنالوجی“ میں تبدیل کرکے پوری پالیسی کوہی بدل ڈالا جس سے مقامی گاڑیاں بنانے والے صنعت کاروں کو ایک بار پھر اربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکالنے کے موقع دیدیا گیا ہے اور دوسری طرف وزارت ماحولیاتی تبدیلی کی سفارشات کو بھی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے، عوام کے ساتھ کی گئی اس بڑی واردات کا انکشاف وزیراعظم کے نام آل پاکستان موٹرڈیلرایسوسی ایشن کی طرف سے لکھے گئے خط میں کیا گیا ہے اس خط میں بتایا گیا ہے کہ وزارت ماحولیاتی تبدیلی نے نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی کی منظوری 5نومبر 2019کو وفاقی کابینہ سے حاصل کی تھی اور کہا گیا تھا کہ اس سلسلے میں وزارت ماحولیات تبدیلی مرحلہ وار اقدامات کے لئے بین الوزارتی کمیٹی تشکیل دے گی اور یہ کمیٹی موجودہ آٹو موبائل مینوفیکچرز کے ہر قسم کے تحفظات اور خدشات دور کرنے کے لئے بھی مشاورت کرے گی۔این ای وی پالیسی جن مقاصد کے حصول کیلئے ہے اس میں ٹرانسپورٹ شعبہ سے گیسوں کے اخراج میں کمی کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلی پر قابو پانا،پاکستان میں صنعتی پیداوار کو فروغ اور گاڑیوں اوراس سے منسلک صنعت کی حوصلہ افزائی کرنا ہے تاکہ مقامی سطح پر ای وی مینوفیکچرنگ کی طرف گامزن ہوسکیں۔اس کے علاوہ ای وی ایس گاڑیوں اور ان کے پرزہ جات کی برآمد کیلئے عالمی سطح پر ای وی ویلیو چین کے ساتھ تعلقات قائم کرنا،
گرین اکانومی اقدامات کے ذریعے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے مقاصد کا حصول،تیل درآمدی بل میں کمی، مفید مقاصد کیلئے کم رش کے اوقات میں بجلی کا استعمال اور بیٹری کی تیاری،چارجنگ انفراسٹرکچر وغیرہ سے منسلک صنعت کو ترقی دینا شامل ہے۔مذکورہ مقاصد کے حصول کیلئے وزارت ماحولیاتی تبدیلی نے درمیانے اور طویل مدت کیلئے وین،جیپ اور چھوٹے ٹرکوں سمیت 30فیصد نئی فروخت کیلئے گاڑیاں تیار کرنے کے ای وی اہداف مقرر کئے جبکہ دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کی نئی فروخت کا50فیصد ہدف مقرر کیا گیا،
ان اہداف کی کابینہ سے اصولی طور پر منظوری دی جاچکی ہے،یہ اہداف پاکستان میں ٹرانسپورٹ شعبے میں دھویں کے اخراج کو مدنظر رکھتے ہوئے طے کئے گئے،جو کہ 40فیصد سے زائد پر مشتمل ہیں اور دنیا بھر میں ای وی کی طرف منتقلی کے تناظر میں بھی ہے اور متعدد ممالک بھی ای وی ایس گاڑیوں کی پیداوار کو بڑھانے کے اہداف متعین کرچکے ہیں جن میں قابل ذکر طور پر بھارت میں 2030تک ٹرانسپورٹیشن شعبے میں ای وی ایس کے 30فیصد حصص متعین کئے گئے ہیں،میکسیکو میں ٹرانسپورٹ شعبے میں 2030تک گرین ہاؤسز گیسز کے اخراج میں 22فیصد کمی کا ہدف رکھا گیا،
ناروے میں ٹرانسپورٹ شعبے میں 2030تک گرین ہاؤسز گیسز کے اخراج میں 40فیصد کمی کا ہدف اور سویڈن میں ٹرانسپورٹ شعبے میں 2030تک گرین ہاؤسز گیسز کے اخراج میں 70فیصد کمی کا ہدف رکھا گیا۔فرانس میں ای وی ایس کیلئے 7ملین چارجنگ پوائنٹس رکھے گئے ہیں،چین میں 2030 تک ٹرانسپورٹیشن شعبے میں الیکٹرک گاڑیوں کا حصص30فیصد طے کیا گیا ہے جبکہ فن لینڈ میں ٹرانسپورٹ شعبے میں 2030تک گرین ہاؤسز گیسز کے اخراج میں 50فیصد کمی کا ہدف رکھا گیا۔کابینہ کی ہدایات پر وزارت ماحولیات این ای وی پالیسی کے تحت متعین کردہ مقاصد کے تناظر میں الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کے
حوالے سے اقدامات کو حتمی شکل دینے بارے وزارت پیدوار وصنعت سے مشاورت کر چکی ہے۔وزارت صنعت وپیداوار نے آٹو انڈسٹری ڈویلپمنٹ کمیٹی کے حالیہ اجلاسوں میں اسی موضوع پر مشاورت کی ہے۔اسی طرح وزارت ماحولیاتی تبدیلی نے بین الوزارتی کمیٹی کے متعدد اجلاسوں کے بعد 26مارچ2020ء کو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے مجوزہ مراعاتی پیکج پیش کیا۔ای سی سی نے وزارت کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے بین الوزارتی کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی کو نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی کیلئے مراعاتی پیکج کے حوالے سے تجاویز پیش کرنے کیلئے ایک ماہ کا وقت دیا گیا۔ای سی سی نے نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی کیلئے مراعاتی تجاویز کی تیاری
بارے وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے کردار اور کوششوں کا اعتراف کیا ہے۔کابینہ اور ای سی سی کے فیصلے کے برعکس وزارت صنعت وپیداوار نے مختلف مقاصد کے ساتھ الیکٹرک وہیکل اینڈ نیو ٹیکنالوجی پالیسی کے نام سے ایک نئی پالیسی متعارف کرا دی اور پھر اسمبلرز میں تقسیم کردی گئیں۔وزارت کا یہ اقدام نہ صرف پبلک سیکٹر میں سٹیک ہولڈر کیلئے حیران کن ہے بلکہ اصل سازوسامان تیار کرنے والے (او ای ایم ایس) بھی حیران ہوکر رہ گئے کیونکہ باضابطہ طور پر کوئی علیحدہ پالیسی تشکیل،پیش کی گئی نہ ہی اس پر کوئی بات چیت ہوئی۔ماہرین بھی”ٹیکنالوجی“ کے نئے لفظ کے استعمال پر حیران ہیں،جو کہ وزارت پیداور نہ ہی بلکہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا کام ہے۔ماہرین بھی ای سی سی کے حالیہ فیصلے کی کھلی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں،
جس نے این ای وی پی کے تحت مراعاتی تجاویز تیار کرنے کیلئے تجاویز دینے کی صرف ہدایت کی تھی،بظاہر یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ای ڈی بی میں متعلقہ افسران او ای ایم ایس میں مضبوط لابی کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور متعلقہ وزارت کے ساتھ ساتھ دیگر سٹیک ہولڈرز کو گمراہ کررہے ہیں۔وزارت صنعت کو ای سی سی کے حالیہ فیصلے تک محدود رہنا چاہئے جبکہ ای ڈی بی کو الیکٹرک گاڑیوں کی فوری پیداوار سمیت این ای وی پر عملدرآمد کیلئے صرف مراعاتی پیکج تجویز کرنا چاہئے۔نیشنل ای وی پالیسی پر فوری عملدرآمد کرانا ماحولیاتی تبدیلی کا کام ہے تاکہ ماحولیاتی تبدیلی معاہدوں پر مثبت اثرات مرتب ہوں۔اس قدر دیر سے نئی پالیسی دینا ای ڈی بی بورڈ اور اے آئی ڈی سی میں بیٹھے ہوئے کچھ کار اسمبلرز کے مفادات کو تقویت پہنچانا ہے،ان تاخیری حربوں کا حل این ای وی پالیسی پر فوری عملدرآمد ہے جو کہ اسمبلرز اور ان کے خریداروں کی جانب سے وزارت کے ذریعے چھپ کر اثرورسوخ استعمال کرنے کا نتیجہ ہے۔
یہ تجویز دی جاتی ہے کہ ای ڈی بی بورڈ اور اے آئی ڈی سی کی نمائندگی پر نظرثانی کرنی چاہئے تاکہ موجودہ کار اسمبلرز اور گاڑی خریداروں کے مفاد کو نکالا جاسکے جو کہ ملکر اس روایتی کار ٹیکنالوجی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں،بجائے اس کے کہ الیکٹرک گاڑیوں کو فوری طور پر لاکر چوتھے/پانچویں صنعتی انقلاب میں داخل ہوسکیں،جس کے متعدد اقتصادی فوائد بھی ہوں گے۔یہ بات قابل عمل ہے کہ وزارت ماحولیاتی تبدیلی کو ایک سال پہلے کابینہ سے منظور شدہ الیکٹرک وہیکل پالیسی ملی اور اب ای ڈی بی کی جانب سے ای وی اینڈ نیوٹیکنالوجی کے نام سے ایک نیا مسودہ پیش کیا جارہا ہے۔ای ڈی بی اے آئی ڈی سی کے گزشتہ دو اجلاسوں میں نئی پالیسی کیلئے اقدامات پر غور کرتا آرہا ہے،جبکہ پیش کیا جانے والا مسودہ مکمل طور پر نئی دستاویز ہے اور اس کا مقصد سٹیک ہولڈرز کیلئے ایک نیا پنڈورہ باکس کھولنا ہے اور صرف اور صرف تاخیری حربے اختیار کئے جارہے ہیں۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ موجودہ آٹو پالیسی ای ڈی بی 2016-21 بورڈ آف انویسٹمنٹ کی پالیسی ہے،جو ای ڈی بی یا وزارت صنعت کی جانب سے پیش نہیں کی گئی تھی۔کابینہ نے بورڈ آف انویسٹمنٹ کی سمری کی منظوری دی تھی،جس کا مقصد سرمایہ کاری کو راغب کرنا تھا۔