بدھ‬‮ ، 22 جنوری‬‮ 2025 

یہ شہری اوورسیز پاکستانیز نہیں کہلائے جا سکتے، لاہور ہائی کورٹ نے دہری شہریت سے متعلق اہم فیصلہ سنا دیا

datetime 11  اپریل‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(این این آئی)لاہور ہائیکورٹ کے اوورسیز پاکستانیوں سے متعلق فیصلہ دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ پاکستان میں مستقل رہائش پذیر دہری شہریت کے حامل شہری اوورسیز پاکستانیز نہیں کہلائے جا سکتے۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے شہری تنویر چشتی کی درخواست پر 29 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔جسٹس جواد الحسن نے اپنے تحریری فیصلے میں قرار دیا کہ 29 صفحات پر مشتمل فیصلہ عدالتی نظیر ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت نے پاکستان میں مستقل رہائش پذیر دہری شہریت کے حامل افراد کی شکایات ازالہ کیلئے اصول بھی وضح کر دیئے۔ درخواست گزار اور اوورسیز پاکستانی کے درمیان معاہدے کے بغور جائزے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ معاملہ خالصتاًدیوانی نوعیت کا ہے۔درخواست گزار کے خلاف اوورسیز پاکستانی حفیظ انجم نے کمیشن کو دی درخواست میں خود کو برطانوی شہری بھی ظاہر کیا۔عدالت نے فریقین کے تفصیلی دلائل کے بعد 4 قانونی نکات اٹھائے تھے۔عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں سوال کیا کہ کیا کمیشن پر واجب ہے کہ شکایت کنندگان کا اوورسیز پاکستانیز کی تعریف میں آنے کا جائزہ لے؟ کیا اوورسیز پاکستانیز کمیشن محض غیر ملکی پاسپورٹ کے حامل مگر پاکستان میں مستقل رہائش پذیر افراد کی دادرسی کر سکتا ہے؟عدالت نے فیصلے میں سوال کیا کہ کیا اوورسیز پاکستانیز کمیشن کو ایکٹ کے تحت اوورسیز پاکستانیوں کے دیوانی نوعیت کے معاملات حل کرنے کااختیار دیا گیا ہے؟ کیا حکومتی ادارے ایک اوورسیز پاکستانی کو عام پاکستانی پر فوقیت دے سکتے ہیں؟عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ تاریخ میں ایسی مثالیں بھری پڑی ہیں کہ لوگ خوشیوں اور اچھے رزق کی خاطر اپنے ملک اور معاشرے چھوڑ کر جاتے ہیں۔اچھے روزگار کی خاطر ایسے لوگ یا تو دوسرے ملکوں میں مستقل یا عارضی طور پر منتقل ہو جاتے ہیں۔آئین میں بے شک اوورسیز پاکستانیز کی تعریف بیان نہیں کی گئی مگر بہتر روزگار کی تلاش میں دیار غیر میں جانے والے کو اوورسیز پاکستانی کہا جاتا ہے۔

جسٹس جواد حسن نے تحریری فیصلے میں امیگرینٹس اور ایمیگریشن کے الفاظ کے معنی پر مختلف ڈکشنریوں کے حوالوں سے سیر حاصل بحثیت بھی کی ہے۔اوورسیز پاکستانیز ایکٹ کی اہلیت کی شرائط پر پورا اترنے والا بیرون ملک میں مقیم شہری ہی اوورسیز پاکستانیز کی تعریف میں آئے گا۔فیصلے میں کہا گیا کہ اوورسیز پاکستانی کمیشن شکایت موصول ہونے پر جائزہ لے کہ آیا شکایت کنندہ قانون کے مطابق اوورسیز پاکستانیز کی شرائط پر پورا اترتا ہے۔اوورسیز پاکستانیز کمیشن کا یہ بنیادی فرض ہے کہ قانون کے تحت شکایت کنندہ اوورسیز پاکستانیز کی شرائط کو پورا کر رہا ہے یا نہیں۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اوورسیز پاکستانیز ایکٹ میں اوورسیز پاکستانیز کی باقاعدہ تعریف لکھ دی گئی ہے۔دہری شہریت حاصل کر کے پاکستان میں مستقل رہائش پذیر افراد اوورسیز پاکستانیز کی صف میں نہیں آتے۔اوورسیز پاکستانیز ایکٹ ہر دہری شہریت کے حامل افراد کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت نہیں دیتا۔عدالتی فیصلے کہا گیا کہ دیار غیر میں بیٹھے پاکستانی شہریوں کے حقوق کو ایکٹ کے تحت تحفظ حاصل ہے۔اوورسیز پاکستانی ہونے کے دعویدار حفیظ انجم نے ایسا کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا جس سے ظاہر ہو کہ وہ بیرون ملک رہائش پذیر ہے۔اوورسیز پاکستانیز کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ

وہ اپنے کمشنرز اور حکومتی اداروں کے درمیان تنازعات کا حل نکالے۔اوورسیز پاکستانیز کمشنرز کی کارکردگی اور سالانہ رپورٹس کا جائزہ لینا بھی کمیشن کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔اوورسیز پاکستانیز کمیشن تنازعات کے حل کیلئے ضلعی سطح پر ایڈوائزری کونسلز کا قیام قانون کے تحت عمل میں لائے۔فیصلہ میں کہا گیاکہ اوورسیز پاکستانیز کی ایماء پر قانون کمشنر یا کسی حکومتی ادارے کو ہرگزاجازت نہیں دیتا کہ کسی پرائیویٹ شخص کیخلاف مقدمہ درج کروائے یا دعوی دائر کروائے۔اوورسیز پاکستانیز کمیشن صرف دیار غیر میں بیٹھے پاکستانیوں کی شکایات کو متعلقہ ریاستی اداروں تک پہنچانے کا اختیار رکھتا ہے۔

فیصلے کے مطابق ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ 30 روز میں اوورسیز پاکستانیز کمیشن کی بھجوائی گئی شکایت پر کارروائی کر کے رپورٹ دیں۔اوورسیز پاکستانیز کمشنر کو ہدایات پر عمل نہ کرنے والے سرکاری افسروں اور ملازموں کیخلاف انضباطی کارروائی کی سفارش کا اختیار حاصل ہے، پولیس نے اورسیز پاکستانیز کمیشنر کی ہدایات پر ایک سول نوعیت کے معاملے کو حل کرنے کیلئے پرائیویٹ شخص کو طلب کیا۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ موجودہ کیس میں اوورسیز پاکستانیز کمیشن اور سرکاری ایجنسی نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، افسوس ہے کہ پولیس اور حکومتی ایجنسیاں بے لگام اختیارات سے شکست خوردہ ہو چکے ہیں،

متعلقہ قانون کی موجودگی میں پولیس اختیارات سے تجاوز کر کے کسی پرائیویٹ شخص کو طلب نہیں کر سکتی، کوئی بھی قانون پولیس یا حکومتی ایجنسی کو اختیار نہیں دیتا کہ پرائیویٹ پارٹی کے حقوق کا تعین کرے۔عدالتی فیصلے کے مطابق پرائیویٹ پارٹیز کے حقوق کا تعین کرنے کے اختیارات محض عدالتوں کے پاس ہیں۔حکومتی ایجنسیوں کا عدالتی اختیارات استعمال کر کے افراد کے حقوق کا تعین کرنا غیر آئینی اور غیر قانونی ہے،۔اوورسیز پاکستانیز کمیشن اور سرکاری ایجنسیاں عدالتیں نہیں ہیں۔ اوورسیز پاکستانیز کمیشن اور پولیس نے کسی مقدمہ کے بغیر سول نوعیت کے معاملے کے فیصلے کیلئے درخواست گزار کو طلب کیا۔فیصلے کے مطابق اوورسیز پاکستانیز کمیشن

اور سرکاری ایجنسی نے سول معاملے میں شہری کو طلب کر کے واضح طور پر اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، پاکستان میں تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھے ہوں۔ قانون کے تحت کسی معاملے کے حل کیلئے اوورسیز پاکستانیوں کو ترجیح نہیں دی گئی بلکہ عدالتی فیصلوں میں سرکاری ایجنسیوں کو بلاامتیاز کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق ریاست کے ہر ادارے پر واجب ہے کہ وہ قانون میں تفویض شدہ اختیارات کے تحت فرائض انجام دے۔اداروں کے اختیارات سے تجاوز کی صورت میں ملک کی اعلی عدالتیں قانون کی حکمرانی کیلئے موجود ہیں۔ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ سرکاری افسران اختیارات

سے تجاوز نہ کریں اور غیر منصفانہ فیصلے نہ کریں۔اوورسیز پاکستانیز کمیشن عدالت کی آبزرویشنز کی روشنی میں دہری شہری کے حامل حفیظ انجم کی شکایت پر فریقین کا موقف سنے،فیصلے میں عدالت نے سوال اٹھایا کہ اوورسیز پاکستانیز کمیشن اس امر کا بھی فیصلہ کرے کہ شکایت کنندہ حفیظ انجم کیا حقیقت میں اوورسیز پاکستانی ہے؟ کمیشن اس امر کا بھی فیصلہ کرے کہ معاملہ فریقین کے مابین ہے یا سرکاری ایجنسی کے درمیان ہے۔ اوورسیز پاکستانیز کمیشن دہری شہری کے حامل حفیظ انجم کی درخواست کے حتمی فیصلے تک درخواست گزار کیخلاف کوئی کارروائی نہ کرے۔درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ دہری شہریت کے حامل حفیظ انجم نے اوورسیز پاکستانیز کمیشن میں کارروائی کی درخواست دائر کر رکھی ہے،

پاکستانی نژاد برطانوی شہری حفیظ انجم کیساتھ 62 لاکھ روپے کے لین دین کا تنازعہ ایک معاہدے کے تحت طے ہو چکا ہے۔درخواست کے مطابق اوورسیز پاکستانی کا تنازعہ شیخ رضوان نامی شہری کیساتھ چل رہا ہے مگر پولیس درخواست گزار کو بلاجواز ہراساں کر رہی ہے۔مستقل طور پر پاکستان میں رہائش پذیر مدعی حفیظ انجم اوورسیز پاکستانیز ایکٹ کے تحت کمیشن میں درخواست دائر نہیں کر سکتا۔مدعی اور درخواست گزار کا رقم لین دین کا معاملہ دیوانی نوعیت کا ہے اور سول کورٹ میں دعوی دائر کیا جا سکتا ہے۔درخواست گزار نے استدعا کی کہ دہری شہریت کے حامل شہری کی درخواست پر اوورسیز پاکستانیز کمیشن کو کارروائی کرنے سے روکا جائے جبکہ سرکاری وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ اوورسیز پاکستانیز کمیشن قانون کے تحت اپنی ذمہ داریاں نبھارہا ہے اور درخواست گزار کو قانونی طور پر طلب کیا گیا۔لاہور ہائیکورٹ صرف اسی صورت میں اس معاملے میں مداخلت کرسکتی ہے جب دہری شہریت کا حامل حفیظ انجم اوورسیز پاکستانیز کی اہلیت پر پورا نہ اترے۔

موضوعات:



کالم



ریکوڈک میں ایک دن


بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…