ہماری حکومت روز عوام کی خوشی کے لیے کوئی نہ کوئی کارنامہ سرانجام دے دیتی ہے‘ وفاقی حکومت نے پہلے لنگر پر دست شفقت رکھ دیا‘ پھر پناہ گاہیں بنائی گئیں اور اب حکومت نے اپوزیشن کے گھروں پر آٹے کی فری ڈیلیوری بھی شروع کر دی ‘ آپ دیکھیے حکومت کتنی اچھی ہےلیکن لوگاس کے باوجود اعتراض کرتے ہیں ‘ عظمیٰ بخاری پنجاب اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ ن کی رکن ہیں‘
یہ اکثر ٹیلی ویژن شوز میں کہتی تھیں لاہور کے عوام کو آٹا نہیں مل رہا‘ حکومت نے آج گلہ دور کرنے کے لیےان کے گھر آٹے کا پورا ٹرک بھجوا دیا‘ محکمہ خوراک کے اہلکاروں نے آٹے کے تھیلےان کے گیٹ کے سامنے اتار دیے مجھے محسوس ہوتا ہے اپوزیشن بلا وجہ اعتراض کر رہی ہے‘ حکومت کے پاس وافر مقدار میں آٹا (موجود) ہے‘ اتنی وافر مقدار میں کہ یہ تنقید کرنے والوں کے گھر آٹے کا پورا ٹرک بھجوا دیتی ہے لہٰذا عظمیٰ (بخاری) صاحبہ کی طرح جس جس کو آٹے کی ضرورت ہے وہ ٹی وی پر آواز (اٹھائے) اور حکومت (اس) کے گھر آٹے کا پورا ٹرک بھجوا دے گی‘ کیا عوام بھی اس فری ڈیلیوری سروس کو انجوائے کر سکتے ہیں یا پھر یہ سہولت صرف عظمیٰ (بخاری) صاحبہ کے لیے تھی‘ عوام کو یہ سوال حکومت سے ضرور پوچھنا چاہیے‘ ہم آج کے موضوع کی طرف آتے ہیں (مونتاج) ملک میں آٹے کے بعد چینی اور دالوں کا کرائسس بھی پیدا ہو گیا‘ چینی کی قیمت میں نو روپے اضافہ ہوگیا جب کہ دکان داروں نے دالیں بیچنا بند کر دیں‘ چینی کی وجہ سے مٹھائی اور بیکری آئٹمز کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں‘ لاہور میں چکی مالکان نے بھی ہڑتال کر دی جب کہ گنا اگانے والے کسان بھی رو رہے ہیں‘ یہ بحران ہے یا پھر مس مینجمنٹ‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔