اسلام آباد(این این آئی)گندم اور چینی کی قیمتوں میں اضافے پر سیاسی دباؤ کے بعد حکومت نے عوامی تنقید سے بچنے کے لیے قدرتی گیس کی قیمت پر 5 سے 15 فیصد تک اضافے کو روک دیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق معلومات رکھنے والے ذرائع نے بتایا کہ کابینہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کا دوسرا سیشن شام کو وزارت توانائی کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے پیش کی گئی سمری پر غور کیلئے طلب کیا گیا تھا۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے ای سی سی کے صبح اور شام کو ہونے والے دونوں اجلاس کی صدارت کی تھی۔وزارت توانائی (پیٹرولیم ڈویژن) اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے متعلقہ افسران گیس کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے نوٹی فکیشن کو آگے بڑھانے کیلئے تیار بیٹھے تھے تاہم انہیں 8 بجے کے قریب پیغام بھیجا گیا کہ ای سی سی نے گندم اور چینی کی قیمتوں میں اضافے پر دباؤ کے باعث انکار کردیا ۔ذرائع کے مطابق اوگرا کو پیٹرولیم/کابینہ ڈویژن کی جانب سے خط جاری کیا جائے گا جس میں چند روز کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافے کو روکنے کا کہا جائے گا تاکہ عوامی دباؤ کم کیا جاسکے۔نجی ٹی وی کے مطابق سمری میں کہا گیا تھا کہ پیٹرولیم ڈویژن نے ای سی سی کو بتایا کہ اوگرا قوانین کے تحت وفاقی حکومت کو سرکاری جریدے میں نوٹی فکیشن کے لیے 40 روز کے اندر کیٹیگری کے حساب سے گیس کی قیمت کی تجویز دینا ضروری ہے جو 20 جنوری 2020 ہے۔سمری کے تحت پیٹرولیم ڈویژن نے اوگرا کی تجاویز تبدیل کرتے ہوئے غریب اور کم آمدنی والے طبقے کے لیے گیس کی قیمتوں میں پیش کردہ قیمتوں سے کمی کی تھی تاہم سمری میں مقامی صارفین کے لیے میٹر کے کرائے میں 400 فیصد، 20 روپے سے بڑھا کر 80 روپے کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔
پیٹرولیم ڈویژن کا کہنا تھا کہ میٹر کا کرایہ آخری مرتبہ 1997 میں طے کیا گیا تھا۔سمری میں کم گیس استعمال کرنے والے صارفین کیلئے قیمتوں میں 5 فیصد اضافہم بجلی کے پلانٹس کے لیے 12 فیصد، صنعتوں اور سی این جی اسٹیشنز کے لیے 15 فیصد قیمتیں بڑھانے کی تجویز دی گئی تھی۔پیٹرولیم ڈویژن کا کہنا تھا کہ اوگرا نے 11 دسمبر 2019 کو سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کے لیے 27 کروڑ 42 لاکھ روپے اور سوئی سادرن گیس کمپنی لمیٹڈ کے لیے 28 کروڑ 29 لاکھ روپے مالی ضروریات طے کی تھیں۔پیٹرولیم ڈویژن کا کہنا تھا کہ اوگرا کی تجاویز پر جائزہ لیا گیا ہے اور مختلف کیٹگریز پر نظر ثانی کی جارہی ہے اور ریگولیٹر کی جانب سے طے کی گئیں مالی ضروریات کا تحفظ کی کوشش کی جارہی ہے۔