لاہور (این این آئی)امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں سخت سردی اوردھند سے عوام،حکومت اور ادارے سب پریشان ہیں۔گیس کی کمی نے چولہے اور حکومت کی کارکردگی نے یوتھ کا جوش ٹھنڈا کردیا ہے۔جماعت اسلامی بلدیاتی انتخابات میں سرپرائز دے گی۔ قومی اسمبلی کا دس منٹ کااجلاس قوم کے ساتھ مذاق ہے۔ پہلے فیصلے کابینہ میں ہوتے تھے اور اب وزیر اعظم صرف مشیروں اور ترجمانوں سے مشاورت کرتے ہیں۔
سینیٹ کا اجلاس کئی ماہ سے نہیں بلایا گیا۔احتساب اور کرپشن ختم کرنے کا نعرہ اب مذاق بن گیا ہے۔ممبران کی سرگرمیوں کو مانیٹر کیا جاتا ہے تاکہ وہ کسی اور کی منڈیرپر نہ جابیٹھیں۔حکومت کی ہر محاذ پر ناکامی ثابت ہوچکی ہے۔وزیر اعظم بار بار کہتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں کرپشن ناقابل قبول ہے،وہ یہ بتائیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں کرپٹ لوگوں کو کوئی پارٹی میں قبول کرکے عہدیدار بناتا ہے۔انڈیا کشمیر میں اپنے سامراجی عزائم کو آگے بڑھا رہا ہے۔بھارت مقبوضہ کشمیر میں بھی بہار اور آسام کی طرح ایسے کیمپ بنارہا ہے جن میں رہنے والے مسلمان نہ بھارت کے شہری ہونگے اور نہ پاکستان آسکیں گے۔ حکومت نے بڑے بڑے دعوے کرکے اور لوگوں کو سبز باغ دکھا کر سخت مایوس کیا ہے۔ہر محفل اور مجلس میں لوگ حکومت کی ناکامیوں کا رونا رورہے ہوتے ہیں۔پی ٹی آئی کو ووٹ اور سپورٹ دینے والے اپنے ہاتھ مل رہے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں وہی پرانا پاکستان واپس کردیں۔آزادی کے بعد پاکستان انگریز کے وفاداروں کے ہتھے چڑھ گیا جنہوں نے ملک کو جی بھر کر لوٹا،اپنی جاگیریں بنائیں،کارخانے لگائے اور پھر مزدوروں اور کسانوں کا استحصال کیا۔وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے غریب کو غریب تر اور امیرکو امیر تر بنا دیا ہے۔ایک پاکستان کے دعویداروں نے پاکستان کے ہر شہر کو امیراور غریب کے تعلیمی اداروں ہسپتالوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ان خیالات کا اظہا رانہوں نے منصورہ میں جاری مرکزی مجلس شوریٰ کے تین روزہ اجلاس کے افتتاحی اجلاس اور جامع مسجد منصورہ میں جمعہ کے بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ آزادی کے بعد بھی عام آدمی کے وہی مسائل ہیں جو آزادی سے پہلے تھے۔ لاکھوں جانوں کانذرانہ دینے اور اپنا سب کچھ پاکستان پر قربان کرنے والوں کے اسلامی نظام کے نفاذ کے سارے خواب چکنا چور کردیئے ہیں۔اگر ملک میں شریعت کا نظام ہوتا تو ملک دولخت نہ ہوتا شریعت کے نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں امیر غریب، طاقتور اور کمزور سب کیلئے ایک قانون ہوتا ہے۔ شریعت کے نظام میں افراد کی نہیں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے اور حاکم اور محکوم کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیاجاتا ہے۔
ملک میں اس وقت جنگل کا قانون اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔ملک میں ہر جگہ وی وی آئی پیز کا راج ہے ہسپتالوں،تھانہ کچہری اور عدالتوں میں وی آئی پی کو پروٹوکول اور غریب کو دھکے دیئے جاتے ہیں حالانکہ غریب بھی وہی ٹیکس دیتا ہے جو ارب پتی دیتے ہیں۔ملک میں مہنگائی،بیروزگاری اور بدامنی کا ڈیرہ ہے۔گزشتہ 15ماہ میں مزیداسی لاکھ شہری خط غربت سے نیچے گرگئے ہیں۔34لاکھ برسر روز گار اپنے روزگار سے محروم ہوئے،قرضوں میں مجموعی طور پر 35فیصد اضافہ ہوا۔ مہنگائی اور بے روز گاری کے ستائے ہوئے عوام سخت پریشان ہیں۔دنیا میں ترقی و خوشحالی اور عروج صرف ان قوموں نے حاصل کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاں قانون کی حاکمیت کو یقینی بنایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم بھی ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کیلئے شریعت کے نظام کی بات کرتے ہیں تاکہ پسے ہوئے طبقے کو انصاف مل سکے۔انہوں نے کہا کہ ملک کو موجودہ گھمبیر صورتحال سے صرف جماعت اسلامی نکال سکتی ہے۔اب قوم کے پاس جماعت اسلامی کے سوا دوسرا کوئی آپشن نہیں رہا۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ مسلم دنیا پر مسلط حکمرانوں کی نااہلی اور استعماری قوتوں کی غلامی کی وجہ سے پوری دنیا میں مسلمان تنہا ہیں۔بھارت میں لاکھوں مسلمانوں کی شہریت منسوخ کردی گئی ہے۔ہندو راج اور ہندوتوا کے خلاف مسلمانوں سمیت تمام اقلیتیں سراپا احتجاج ہیں لیکن دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر میں بدترین کرفیو اور فوجی محاصرے کو ایک سوپنتالیس دن گزر گئے ہیں مگرکشمیریوں کی چیخ و پکار کاحکمرانوں پر کوئی اثر نہیں ہورہا۔حکمرانوں کے بیانات اور پالیسیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ کشمیر کے صرف اسی حصے کی حفاظت چاہتے ہیں جو پاکستان کے ساتھ ہے۔مقبوضہ کشمیر کے عوام کو حکمرانوں نے بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔