پیر‬‮ ، 16 جون‬‮ 2025 

بھارت : مسلمان سنسکرت پروفیسر کو مذہب کی وجہ سے طلبہ کی مخالفت کا سامنا

datetime 29  ‬‮نومبر‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

وارانسی (این این آئی)بھارت کے شہر وارانسی میں مسلمان پروفیسر کو سنسکرت کا ٹیچر تعینات کرنے کے خلاف طلبا کی جانب سے کلاسز کا بائیکاٹ کیا گیا ہے۔اس حوالے سے احتجاج کرنے والے طلباء نے کہاہے کہ مسلمان شخص قدیم ہندو مت سے وابستہ زبان کی تعلیم نہیں دے سکتا۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 6 نومبر کو فیروز خان کی تقرری کی خبر کے بعد 30 طلبا پر مشتمل گروہ نے وائس چانسلر کے

دفتر کے سامنے دھرنا دیا کہ مسلمان پروفیسر سنسکرت کی تعلیم دینے کا حق نہیں رکھتا۔فیروز خان کو جب بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو ) میں سنسکرت لٹریچر کے پروفیسر تعینات ہونے پر بہت خوش تھے تاہم 2 ہفتے سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود وہ سنسکرت کی ایک کلاس بھی نہیں لے سکے۔اس حوالے سے فیروز خان نے بتایا کہ جب میرے والد نے مجھے اسکول بھیجنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے ایسے اسکول کا انتخاب کیا جہاں سنسکرت پڑھائی جاتی تھی کیونکہ انہوں نے خود بھی پڑھی تھی اور وہ اس سے محبت کرتے تھے۔انہوں نے بتایا کہ سنسکرت سے میری محبت اور وابستگی اس وقت شروع ہوئی جب میں اسکول میں تھا۔خیال رہے کہ قدیم بھارت میں سنسکرت زبان کا استعمال اسکالرز کی جانب سے کیا جاتا تھا اور بعض اوقات اسے دیوابھاشا یعنی دیوتاؤں کی زبان بھی قرار دیا جاتا تھا۔تاہم موجودہ دور میں ایک فیصد سے کم بھارتی یہ زبان بولتے ہیں اور یہ زیادہ تر مذہبی تقریبات کے دوران ہندو پنڈتوں کی جانب سے استعمال کی جاتی ہے۔ہندو مذہب اور ہندو مذہبی تحاریر سے وابستہ زبان کو زندہ رکھنا بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا اہم منصوبہ رہا ہے۔مسلمان پروفیسر کے خلاف احتجاج میں شریک طالبعلم چکراپنی اوجھا جن کا تعلق بی جے پی کے اسٹوڈنٹ ونگ اکھیل بھارتیہ ودیارتھی سے ہے انہوں نے کہا کہ مسلمان پروفیسر کی تقرری یونیورسٹی کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

تاہم یونیورسٹی کے عہدیداران کا کہنا تھا کہ فیروز خان کی تعیناتی کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ایک عہدیدار نے کہا کہ یونیورسٹی نے ملازمت کے لیے متفقہ طور پر بہترین امیدوار کو منتخب کیا ہے۔آنند موہن سنگھ نے کہا کہ اگر ایک مسلمان پروفیسر سنسکرت پڑھاتا ہے تو اس سے ہندوازم کی عظمت پر اثر پڑتا ہے۔پروفیسر کی برطرفی کے مطالبات کے باوجود کچھ اساتذہ نے ان کی حمایت میں آواز بھی بلند کی ہے۔بنارس یونیورسٹی کے

اردو ڈپارٹمنٹ کے سربراہ آفتاب احمد آفاقی نے کہا کہ ‘ 30 سال تک ایک ہندو شخص نے ایک محکمے کی سربراہی کی جس میں اردو، فارسی اور عربی زبانیں شامل تھیں، یہاں تک کہ ان کے پاس ایک ایسی ڈگری بھی تھی جو انہیں قرآن پڑھانے کی اجازت بھی دیتی تھی۔انہوں نے کہا کہ شعبہ اردو میں ہندو پروفیسرز بھی ہیں، مذہب اور زبان دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔طلبا نے احتجاج روک دیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ پروفیسر کی معطلی تک احتجاج جاری رہے گا۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



شیان میں آخری دن


شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…

نیوٹن

’’میں جاننا چاہتا تھا‘ میں اصل میں کون ہوں‘…

غزوہ ہند

بھارت نریندر مودی کے تکبر کی بہت سزا بھگت رہا…

10مئی2025ء

فرانس کا رافیل طیارہ ساڑھے چار جنریشن فائیٹر…