اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) نواز شریف اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتے جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ آئندہ ہفتے ان کی درخواست ضمانت پر کوئی فیصلہ نہیں کرتی۔ اسی طرح کی ایک درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے گزشتہ روز ان کی ضمانت منظور کی۔
دونوں عدالت ہائے عالیہ میں درخواستیں نواز شریف کے برادر خورد اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے دائر کی تھیں،روزنامہ جنگ کے مطابق طبی بنیادوں پر دائر ان درخواستوں میں نواز شریف کی تشویشناک حالت کا حوالہ دیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم میں یہ واضح کیا گیا کہ دو رکنی بنچ اس بات کی قائل ہے کہ تشویشناک حالت کے باعث سابق وزیراعظم فوری رہائی کے مستحق ہیں۔ نواز شریف جو دسمبر 2018 سے جیل میں قید ہیں۔ اس دوران بغرض علاج ان کی 6ہفتوں کے لئے سپریم کورٹ کی جانب سے ضمانت منظور ہونے پر رہائی ملی تھی۔ شریف خاندان ان کی بگڑتی کیفیت کے بارے میں مہینوں سے خبردار کرتا چلا آ رہا تھا۔ تاہم سیاسی مخالفین کو یقین نہیں آرہا تھا۔ ان کے علاوہ اعلیٰ عدلیہ بھی نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کے لئے استدعا سے مطمئن نہیں تھی حالانکہ حکومت پنجاب کے تشکیل کردہ کم از کم 6میڈیکل بورڈز نے نواز شریف کی حالت کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے ماہر ڈاکٹروں کے ذریعہ فوری علاج کی ضرورت پر زور دیا۔ حکومت کو جب یہ باور ہو گیا کہ نواز شریف کی طبیعت تیزی سے بگڑتی جا رہی اور زندگی کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے تو اس نے بھی اپنے سخت مؤقف میں نرمی پیدا کر لی۔ لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹس کو سینئر ڈاکٹروں کی جانب سے پیش کردہ رپورٹس یکساں ہیں۔
جن میں ان کی زندگی کو درپیش خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے اپنی آبزرویشن میں یہ اہم ریمارکس دیئے کہ نواز شریف کو قانونی بنیاد پررہائی نہیں دی جا سکتی۔ تاہم طبی بنیادوں پر غور ممکن ہے ۔یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست کی سماعت منگل کو ہو گی۔