اسلام آباد(این این آئی)جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت کیخلاف آزادی مارچ پروگرام کے مطابق 27اکتوبر سے شروع ہوگا اور 31اکتوبر کو شرکاء اسلام آباد میں داخل ہونگے،یہ دھرنا اور اسلام آباد کا لاک ڈاؤن نہیں، ہم پی ٹی آئی کی طرح 126دن کے دھرنے والی پالیسی کی پیروی نہیں کرینگے،مارچ مکمل طورپر پر امن ہوگا اور ہم کسی سے بھی تصادم یا ٹکر کا ارادہ نہیں رکھتے،ہم حکمت عملی کے کچھ حصوں کو مبہم رکھنا چاہتے ہیں،
حکمت عملی خود بنائینگے،اپوزیشن کی تمام جماعتوں کا اتفاق ہے کہ موجودہ حکومت کو جاناچاہیے اور ہمارے آزادی مارچ کی حمایت کی ہے،حکومت سے کسی ڈیل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اگر ڈیل کر نا تھی تو اب تک کر چکے ہوتے، مجھے گرفتارکیا گیا تو عوام خود تحریک کی قیادت کرینگے۔ منگل کو غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ گرفتاری ان کیلئے کوئی نئی چیز نہیں ہے کیونکہ ماضی میں بھی جتنی تحریکیں چلی ہیں تو قیادت گرفتار ہوئی ہے لیکن تحریکیں متاثر نہیں ہوئی تھیں۔انہوں نے کہاکہ اگر ہم گرفتار ہوتے ہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑیگا،عوام خود تحریک کی قیادت کرینگے۔ انہوں نے کہاکہ ہمارا ٹارگٹ پندرہ لاکھ لوگوں کو اسلام آباد لانا ہے اور اگر پانچ لاکھ گرفتار بھی ہوتے ہیں تو دس لاکھ ضرور اسلام آباد آئینگے۔انہوں نے کہاکہ وہ اپنے کارکنان کو تھکانہ نہیں چاہتے اور حکمت علمی کے تحت ان کو دیگر علاقوں میں منتقل کیا جائیگا۔انہوں نے کہاکہ احتجاج حکومت کے خاتمے تک جاری رہے گا، احتجاج ہمارا حق ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم اداروں کے ساتھ جنگ نہیں کر ناچاہتے، ہمارا کوئی خانہ جنگی والا تصور ہے ہی نہیں،ہم نے پورے ملک میں پندرہ ملین مارچ کئے ہیں لیکن کسی بھی جگہ تشدد کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا اور یہی پالیسی حکومت کے خلاف مارچ میں بھی اپنائی جائے گی۔اس اعتراض پر کہ جمعیت علمائے اسلام (ف)مدارس کے طلباء کو حکومت کے خلاف مارچ میں استعمال کریگی انہوں نے کہاکہ
ان کی پارٹی نے مدارس کو مارچ میں شامل ہونے کی دعوت نہیں دی ہے۔انہوں نے کہاکہ مدارس کی تنظیمات میں بھی مدارس بند کرنے کی ہدایت جاری نہیں کی، طلباء کے استعمال کا ہمارے خلاف پروپیگنڈہ ہورہاہے اور ہم پروپیگنڈا کا جواب نہیں دیتے۔انہوں نے کہاکہ دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے حمایت کاوعدہ کیا ہے، جمعیت علمائے اسلام سالہاسال سے جمہوریت اور پارلیمانی سیاست کررہی ہے اورہم نے کبھی بھی جمہوری راستہ نہیں چھوڑا۔انہوں نے حکومت کے خلاف مارچ کا دفاع کرتے ہوئے
کہاکہ موجودہ حکومت ناجائز اور نا اہل ہے اور تمام جماعتیں اس پر متفق ہیں،حکومت کے پاس جانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے،حکومت نہ صرف اندرونی معاملات میں ناکام ہوگئی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ناکام ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان آج دنیا میں اکیلا کھڑا ہے اور ہماری قریبی دوست بھی ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔مذاکراتی ٹیم کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہاکہ ایک جانب حکومت نے مذاکرات کیلئے ٹیم بنائی ہے جبکہ دوسری طرف وزیراعظم اور حکومتی وزراء گالیاں اور
تضحیک پر اتر آئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے پریس کانفرنس میں دھمکیاں دیں، دھمکیاں اور مذاکرات اکٹھے نہیں چل سکتے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان میں ہر طبقہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے پریشان ہے،معیشت کی بری حالت ہے،علاج کی سہولتیں موجودہ حکومت نے ختم کر دی ہیں،تاجر پریشان دکھائی د ے رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ آزادی مارچ کوئی ماورائے آئین اقدام نہیں ہے،یہ حکومت دھاندلی کی پیداوار اور نامزد لوگوں پر مشتمل ہے اسی لئے
ان کو مزید اقتدار میں رہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔انہوں نے کہاکہ تمام جماعتیں دھاندلی کے خلاف احتجاج پر متفق ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ انہیں طعنہ دیا جاتا ہے کہ اسمبلی سے باہر ہونے کی وجہ سے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کااعلان کیا ہے انہوں نے کہاکہ تحریک میں وہ اکیلے نہیں بلکہ آصف زر داری اور شہبازشریف تو اسمبلی میں بیٹھے ہیں اور انہوں نے بھی تحریک کی حمایت کااعلان کیا ہے۔اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے
آزادی مارچ کے مقاصد و اہداف جاری کر تے ہوئے کہا کہ آزادی مارچ کا مقصد آئین پاکستا ن میں موجود اسلامی دفعات کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے کہاکہ غربت، مہنگائی اور بے روز گاری سے نجات اور غیر مستحکم پالیسیوں کی جہ سے پیدا ہونے والی بے یقینی کا خاتمہ ہے۔ انہوں نے بتایاکہ آزادی مارچ کا مقصد بین الاقوامی سرمایہ کاری کے عدم رجحان کی بدولت ڈوبتی معیشت کی بحالی، ناکام خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی سفارتی تنہائی کا سد باب ہے۔ انہوں نے بتایاکہ اظہار رائے کی آزادی پر قدغن اور میڈیا پر لگی قید و بند کا یقینی خاتمہ ہے۔