کراچی(نیوزڈیسک )پاکستان پر مجموعی قرضوں کے بوجھ میں رواں مالی سال کے پہلے 9ماہ کے دوران 9فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کی تیسری سہ ماہی کے اختتام پر مجموعی مجموعی قرضوں اور واجبات کی مالیت 19.30ٹریلین روپے تک پہنچ گئی جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے خاتمے پر 17.73 ٹریلین روپے تھی، اس طرح 9 ماہ کے دوران مجموعی قرضوں اور واجبات کی مالیت میں 1.57ٹریلین (1570ارب) روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
مجموعی قرضوں کو محدود رکھنے کے لیے 2005 میں متعارف کرائے جانے والے فسکل ریسپانسبلیٹی اینڈ ڈیٹ لمٹیشن ایکٹ کے تحت حکومت مجموعی قرضے جی ڈی پی کے 60فیصد تک محدود رکھنے کی پابند ہے اور مجموعی قرضوں کو اس سطح تک لانے کے لیے مالی سال 2013 کے اختتام تک کی مہلت دی گئی تھی تاہم سابقہ حکومت کی طرح موجودہ حکومت بھی بجٹ خسارے پر قابو پانے میں ناکام ہے اور قرض گیری میں اضافے کی وجہ سے ایکٹ کی مسلسل خلاف ورزی ہورہی ہے۔
رواں مالی سال کی تیسری سہ ماہی کے اختتام پر مجموعی قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 70.5 فیصد کے برابر ہے جو فسکل ریسپانسبلیٹی اینڈ ڈیٹ لمٹیشن ایکٹ کے تحت مقرر کی گئی 60فیصد کی سطح سے 10.5فیصد زائد ہے، تیسری سہ ماہی کے اختتام تک واجب قرضوں میں 12.04ٹریلین روپے کے مقامی قرضے جبکہ 6.06ٹریلین روپے کے غیرملکی قرضے شامل ہیں۔
معیشت پر قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے حکومت اپنے وسائل کا بڑا حصہ قرضوں اور اس پر مارک اپ کی ادائیگی پر خرچ کررہی ہے، رواں مالی سال کی تیسری سہ ماہی تک قرضوں پر اصل رقم اور سود کی مد میں مجموعی طور پر 515.4ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئی ہیں جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں کی جانے والی 442.2ارب روپے کی ادائیگیوں سے 73.4ارب روپے (16.6فیصد)زائد ہیں۔
حکومتی قرضوں میں9فیصداضافہ
12
جون 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں