اسلام آباد(نیوزڈیسک )بھارتی حکام کے مطابق پاکستان نے نریندر مودی کے تجویز کردہ سارک سیٹلائٹ منصوبے سے متعلق کوئی ’خاطر خواہ‘ جواب نہیں دیا، جس کی وجہ سے اب بھارت اسلام آباد حکومت کے بغیر ہی اس منصوبے کو آگے بڑھائے گا۔ایک حکومتی عہدیدار کا نیوز ایجنسی پی ٹی آئی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہوں نے اسلام آباد کو چھوڑ کر باقی علاقائی ملکوں کے ساتھ بات چیت کا آغاز کر دیا ہے۔ اس عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ”پاکستان کے علاوہ تمام سارک ملکوں نے مثبت جواب دیا ہے۔ ہر کسی نے باقاعدہ طور پر اس منصوبے میں شمولیت سے متعلق جواب دیا ہے، صرف پاکستان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اس منصوبے سے متعلق ان کی اندرونی مشاورت جاری ہے۔“ اس حکومتی اہلکار کے مطابق اب دیگر ملکوں کے ساتھ مشاورت کا عمل آگے بڑھایا جائے گا۔انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن کے سربراہ کِرن کمار کا کہنا تھا، ” رکن ملکوں کے ساتھ رواں ماہ کے اوآخر میں اس موضوع پر ایک اجلاس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔“ بھارت نے گزشتہ برس انتہائی کامیابی کے ساتھ اپنا ایک مواصلاتی سیارہ خلاءمیں بھیجا تھا، جس کے بعد نریندر مودی نے کہا تھا کہ سارک ممالک کے مابین زیادہ ہم آہنگی ضروری ہے اور خطے کا ایک مشترکہ سیٹلائٹ ہونا چاہیے۔یہ بھارتی منصوبہ جنوبی ایشیا میں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی ہے کیونکہ بھارتی اسپیس ایجنسی کئی دیگر ملکوں کے سیٹلائٹ بھی خلاءمیں بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ مودی کے بیان کے بعد نئی دہلی حکومت نے تمام سارک ممالک کو اس منصوبے میں شمولیت کے دعوت نامے بھیجے تھے۔ بھارتی نیوز ایجنسی نے اپنے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے ابتدائی ردِعمل کے بعد اب تمام ملکوں کے نمائندے رواں ماہ کے آخر میں ایک ساتھ مل کر بیٹھیں گے۔انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن کے مطابق مجوزہ منصوبے کے تحت سارک ممالک مشترکہ سیٹلائٹ کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کر سکیں گے۔ اس بھارتی منصوبے کے برعکس چند ایک سارک ممالک پہلے ہی اپنے مواصلاتی سٹیلائٹ خلاءمیں بھیج چکے ہیں۔ پاکستان نے اپنا مواصلاتی سیارہ سن 2011 میں چین کی مدد سے زمینی مدار میں چھوڑا تھا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کا اسپیس اینڈ ریسرچ کمیشن پہلے ہی چین کے قومی اسپیس ادارے (سی این ایس اے) کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور چین کا یہ قومی ادارہ بھارت کی نسبت کہیں زیادہ ترقی کر چکا ہے۔ سری لنکا نے بھی اپنا مواصلاتی سیارہ چین کی مدد سے زمینی مدار تک بھیجا تھا جبکہ افغانستان نے اپنا سٹیلائٹ ایک فرانسیسی کمپنی سے لِیز پر لے رکھا ہے۔