فیصل آباد (آن لائن)مدارس ایکشن کمیٹی کے زیراہتمام جامعہ رضویہ میں منعقدہ ملک گیر مدارس کنونشن میں شریک 3 ہزار سے زائد مدارس ناظمین نے تنظیم المدارس کی قیادت پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا۔ مفتی منیب الرحمن، صاحبزادہ عبدالمصطفے ہزاروی، غلام محمد سیالوی استعفیٰ دیں اور قوم کے دس سوالوں کا جواب اور 25 کروڑ کا حساب دیں۔ جانبدار اور متنازعہ افراد پر مشتمل بنائی گئی انتخابی کمیٹی تحلیل کی جائے۔
مدارس کنونشن میں منظور کئے گئے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ تنظیم المدارس کی موجودہ غیر آئینی قیادت کو برطرف کر کے غیرجانبدار افراد پر مشتمل عبوری انتظامیہ نامزد کی جائے۔ عبوری انتظامیہ ووٹرز لسٹ کی تطہیر کر کے مرکزی شوری کی مکمل فہرست پتہ جات اور فون نمبرز کے ساتھ شائع کرے۔ خواتین مدارس کی ناظمات کو ووٹ کا حق دیا جائے۔ مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو تنظیم المدارس کا الیکشن نہیں ہونے دیں گے۔ اگلا مدارس کنونشن 6 اکتوبر کو ایوان اقبال لاہور میں ہو گا۔ بینک میں فکس کروائے گئے 25 کروڑ واپس لے کر پسماندہ علاقوں کے مدارس میں تقسیم کئے جائیں۔ مدارس کنونشن میں چاروں صوبوں اور آذاد کشمیر سے تین ہزار سے زائد مدارس کے ناظمین نے شرکت کی۔ کنونشن کے مقررین میں سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا، جے یو پی کے نائب صدر پیر سید محمد محفوظ مشہدی، شیخ الحدیث علامہ سعید قمر سیالوی، صاحبزادہ حسین رضا (فیصل آباد)، مولانا وزیر القادری (کوئٹہ)، مفتی گلزار احمد نعیمی (اسلام آباد)، علامہ ڈاکٹر شمس الرحمن شمس (پشاور)، پیر سید محمد اقبال شاہ (بورے والا)، علامہ ریاض پیرزادہ (راولپنڈی)، پیر سید واجد گیلانی، علامہ ضیاء المصطفے حقانی (لاہور)، علامہ اصغر علی شاکر، علامہ ارشد نعیمی، مفتی امان اللہ شاکر، مفتی محمد حسیب قادری، ڈاکٹر مفتی محمد کریم خان، علامہ ممتاز ربانی، علامہ مختار احمد ندیم، علامہ برکات احمد صدیقی، مفتی مشتاق احمد نوری، مفتی احمد سعید طفیل، علامہ راحت عطاری، مفتی محمد امین، علامہ حافظ سلمان رضوی، پیر طارق ولی چشتی، پیر میاں غلام مصطفےٰ اور دوسرے علماء شامل تھے۔
کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ مدارس کی واضع اکثریت تنظیم المدارس کی قیادت سے بیزار اور مایوس ہے۔ مخصوص مفاد پرست ٹولے نے تنظیم المدارس پر قبضہ کر رکھا ہے۔ دس سال سے تنظیم المدارس کی مرکزی شوری کا اجلاس نہیں بلایا گیا اور پانچ افراد آئین کو پس پشت ڈال کر من مانی کر رہے ہیں۔ مفتی منیب الرحمن پچھلے دو انتخابات کے موقع پر آئندہ صدارتی امیدوار نہ بننے کے وعدے کی پاسداری کریں۔
پنجاب اسمبلی کے سابق رکن اور جے یو پی کے نائب صدر پیر سید محفوظ مشہدی نے کہا کہ مفتی منیب الرحمن نے حکومتی ایوانوں میں مدارس کا سودا کیا ہے۔ تنظیم المدارس کو قبضہ گروپ سے آذاد کروا کر دم لیں گے۔ مفتی منیب الرحمن بڑے سرکاری منصب پر فائز ہونے کی وجہ سے تنظیم المدارس کی صدارت کے اہل نہیں۔ تنظیم المدارس کا غیر آئینی الیکشن رکوانے کے لئے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر دی ہے۔ ہماری جدوجہد عہدوں کے لئے نہیں اصولوں کی جنگ ہے۔
شیخ الحدیث علامہ سعید قمر سیالوی نے کہا کہ انٹرسٹ کے نام پر بینک سے سود لینے والوں کو تنظیم المدارس کی قیادت پر فائز کرنا غیرشرعی ہے۔ تنظیم المدارس کی موجودہ قیادت کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ عاملہ کے فیصلوں کی شوری سے توثیق کروائے بغیر تمام معاملات غیر آئینی طور پر چلائے جا رہے ہیں۔ صاحبزادہ حسین رضا نے کہا کہ ہمیں اہل سنت کی سیاسی قیادت اور بڑے اکابرین کی حمایت حاصل ہے۔ ہم نے مدارس کنونشن میں اپنی واضع اکثریت ثابت کر دی ہے۔ تنظیم المدارس کسی کے باپ کی جاگیر نہیں بلکہ اہل سنت کی مشترکہ تنظیم ہے۔ تنظیم المدارس کے فنڈز پر عیاشیاں کرنے والے عہدیداران ناقابل برداشت ہیں۔ ہمارے تحفظات دور نہ کئے گئے تو ہم اپنے فیصلے کرنے میں آذاد ہوں گے۔ مفتی گلزار احمد نعیمی نے کہا کہ تنظیم المدارس میں تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔ متکبر قیادت سے جان چھڑانے کا وقت آ گیا ہے۔
مدارس ایکشن کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ مولانا وزیرالقادری نے کہا کہ بلوچستان کے تمام مدارس ایکشن کمیٹی کے ساتھ ہیں۔ بلوچستان کے مدارس ناظمین کی شہادتوں پر تنظیم المدارس کی قیادت نے آواز نہ اٹھا کر مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ بلوچستان کے مدارس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر شمس الرحمن شمس نے کہا کہ خیبر پختونخواہ کے مدارس تنظیم المدارس کی قیادت سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس وقت عالمی اور ملکی سطح پر مدارس کے خلاف ہونے والی سازشوں پر تنظیم المدارس کی قیادت کیوں خاموش ہے۔ مدارس کنونشن میں منظور کی گئی قرارداد میں مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورت حال پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں ڈیڑھ ماہ سے جاری کرفیو کے خاتمے کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالے۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کیا جائے۔ عالمی برادری بھارت کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا غیر آئینی فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرے۔ مسلم ممالک بھارت کا سفارتی و تجارتی بائیکاٹ کریں۔