اسلام آباد (این این آئی)پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے کہاہے کہ غیر ظاہر شدہ اثاثے رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے ٹیکس ایمنسٹی متعارف کرانے میں تاخیر کی گئی، ان میں سے 5 افراد کے خلاف کارروائی ہوتی تو اسکیم کو بڑا ریسپانس ملتا۔ جمعرات کو اسد عمر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا۔اسد عمر نے کمیٹی میں سینئر حکام کی عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کیا اور کمیٹی نے احتجاجاً تمام حکومتی بلوں کی منظوری موخر کردی۔
کمیٹی نے فارن ایکسچینج ریگولیشن ترمیمی بل 2019 اور انسداد منی لانڈرنگ ترمیمی بل 2019 کی منظوری موخر کردی جبکہ اثاثے ظاہر کرنے کے آرڈیننس 2019 پر غور بھی مو?خر کردیا گیا۔کمیٹی چیئرمین اسد عمر نے کہا کہ تمام حکومتی بلوں کو موخر کر رہے ہیں، اگر حکومت اپنے بلوں میں سنجیدہ نہیں تو ہم کو سنجیدہ لے۔انہوں نے کہا کہ کمیٹی، وزارت خزانہ کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتی، اس کا کام ایڈوائس، سفارش اور مانیٹرنگ کرنا ہے۔وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) کے رکن ڈاکٹر حامد عتیق سرور نے کمیٹی نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ٹیکس گوشواروں کے متعلق پیچیدگیاں دور کر دیں، جبکہ قانون کے مطابق ایف بی آر زرعی آمدن پر ٹیکس اکٹھا نہیں کر سکتا۔کمیٹی کے رکن اور پی ٹی آئی رہنما فیض اللہ کاموکا نے کہا کہ ایف بی آر نے پراپرٹی کے نئے ریٹس مقرر کر دیئے جس سے لوگوں کی چیخیں نکل گئی ہیں۔انہوں نے کہاکہ پراپرٹی کے ریٹس 100 فیصد بڑھا دیئے گئے جس سے کاروبار تباہ ہوجائے گا تاہم ایف بی آر رکن نے بتایا کہ پراپرٹی کے نئے ریٹس پر ابھی تک اطلاق نہیں کیا گیا، سروے کرکے نئے ریٹس تجویز کیے ہیں جبکہ پراپرٹی کی قیمتوں کو مارکیٹ کے 85 فیصد تک لے کر جارہے ہیں۔اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کی رکن عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ پراپرٹی کی قیمتوں کا تعین کرنا صوبوں کا کام ہے۔کمیٹی نے ملک میں بڑھتی مہنگائی پر اظہار تشویش کرتے ہوئے سیمنٹ، آٹا، چینی اور مقامی فضائی ٹکٹس کی قیمتوں میں اضافے پر بریفنگ طلب کرلی۔
کمیٹی چیئرمین اسد عمر نے کہا کہ لوگوں کے اربوں ڈالرز باہر پڑے ہوئے ہیں، لیکن پاکستان میں لوگوں پر نہ چاہتے ہوئے بھی اضافی بوجھ ڈالا جارہا ہے اور بیرون ملک پاکستانیوں کے اربوں ڈالرز واپس نہیں لائے جارہے۔ایف بی آر حکام نے پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 28 ممالک سے ایک لاکھ 52 ہزار اکاؤنٹس کا ڈیٹا مل چکا ہے جن میں 7 ارب 50 کروڑ ڈالرز موجود ہیں۔حکام نے کہا کہ صرف 650 اکاؤنٹس میں 4 ارب 50 کروڑ ڈالرز موجود ہیں جن میں سے 60 فیصد افراد نے ٹیکس ایمنسٹی کلیم کردی ہے۔اسد عمر نے کہا کہ ان افراد کے خلاف کارروائی کے لیے ٹیکس ایمنسٹی متعارف کرانے میں تاخیر کی گئی، ان میں سے 5 افراد کے خلاف کارروائی ہوتی تو ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو بڑا ریسپانس ملتا۔کمیٹی نے ایف بی آر کی بریفنگ مسترد کردی اور آئندہ اجلاس میں چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کو بیرون ملک اکاؤنٹس پر بریفنگ کے لیے طلب کر لیا۔