اسلام آباد(سی پی پی)اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف ریفرنس کے معاملے پر مزید دلچسپ انکشافات سامنے آ گئے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے سندھ ہائیکورٹ نے پہلی بار 2018 میں اپنی غیر ملکی جائیدادیں ظاہر کیں لیکن ان اثاثوں کی مالیت کا نہیں بتایا گیا ۔
حکو متی رکن نے انکشاف کیا کہ ایسٹس ریکوری یونٹ (اے آر یو)اور ایف بی آر کی رپورٹ پر سپریم کورٹ اور سندھ ہائیکورٹ دونوں کے ججز کے خلاف ریفرنس بنایا گیا۔ 10اپریل کو اے آر یو کو عبدالوحید ڈوگر کی جانب سے شکایات موصول ہوئی کہ جسٹس کے کے آغا اور 2دیگر ججز بیرون ملک پراپرٹی کی ملکیت رکھتے ہیں۔وفاقی حکومت نے ایف بی آر کی رپورٹ شکایت کے ساتھ منسلک کی ۔رپورٹ کے مطابق جس کے مطابق جسٹس آغا نے چوبیس نومبر 2005 کو کیلورٹ کلوز بیلویڈر کینٹ میں پراپرٹی نمبر 17 کو شراکت داری کے ساتھ خریدا۔ جبکہ ٹیکس ایئر 2018 کے اختتام تک اپنی ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں اسے ظاہر نہ کیا۔ اور جب پراپرٹی کا اعلان بھی کیا گیا تو قیمت نہیں بتائی گئی ۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سندھ ہائیکورٹ کے جج نے 2005 سے 2014تک ٹیکس ڈیکلیئریشن فائل نہیں کئے۔ وہ پانچ مارچ 2014 کو ایف بی آر میں رجسٹرڈ ہوئے۔انھوں نے ٹیکس ایئرز 2015،2016 اور 2017 میں اپنے ٹیکس ڈیکلیئریشن فائل کئے۔ لیکن پراپرٹی کو ظاہر نہیں کیا۔ایف بی آر رپورٹ کے مطابق جسٹس آغا نے برطانیہ میں کیرویا کلوز ڈیٹفور میں پراپرٹی نمبر 40بھی خریدی ، دوہزار اٹھارہ کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں اسے ظاہر کیا لیکن قیمت نہ بتائی۔وہ برطانیہ کے لوئیڈ بینک میں اکائونٹ بھی رکھتے ہیں جو انھوں نے ٹیکس ایئر 2018میں ظاہر کیا لیکن اس اکائونٹ میں کتنی رقم ہے یہ نہیں بتایا۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سندھ ہائیکورٹ کے جج دہری شہریت رکھتے ہیں اور وہ دوہزار چار سے اب تک اپنے غیرملکی چونسٹھ دوروں میں پاکستانی اور برطانوی پاسپورٹ دونوں کو استعمال کرتے رہے ہیں۔