اسلام آباد (این این آئی) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے بلوچستان میں دہشتگرد انہ کارروائیوں میں اضافے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ حکومت اس نئی لہر کو نظرانداز نہ کرے اور نیشنل ایکشن پلان کا از سرِنو جائزہ لیا جائے گا جس میں چاروں صوبائی آئی جیز، ہوم سیکرٹریز اور دیگر متعلقہ اداروں سے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد پر بریفنگ حاصل کی جائے گی، دشمن قوتیں بلوچستان میں دھشتگردی کے ذریعے پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ دشمن اپنی مذموم
کوششوں میں ناکام ہوگا، شہداء کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی،سی پیک کو کسی صورت بھی ناکام نہیں ہونے دیا جائے گا، پاکستانی لڑکیوں کی چینی باشندوں کی شادی کے معاملے پر ایف آئی اے سے یفنگ حاصل کی جائے گی، لاپتہ افراد کے حوالے سے ملک کی تمام سیاسی جماعتیں مسئلے کے حل کی خواہاں ہیں اور متاثرین کے ساتھ کھڑی ہیں۔ منگل کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔اجلاس میں سینیٹر کلثوم پروین، محمد جاوید عباسی، چوہدر ی تنویر خان، حاجی مومن خان آفریدی، سردار محمد شفیق ترین، ڈاکٹر شہزاد وسیم، جنرل (ر) عبدالقیوم اور محمد یعقوب خان ناصر کے علاوہ سپیشل سیکرٹری داخلہ میاں وحید الدین، میئر اسلام آباد شیخ انصر عزیز، چیئرمین سی ڈی اے عامر احمد علی، چیئرمین نادرا عثمان مبین، ڈی آئی جی خیبر پختونخواہ محمد علی، ڈی آئی جی سیکورٹی اسلام آباد وقار احمد چوہان،ایس پی صدر پشاور اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سی ڈی اے اور میونسپل کارپوریشن اسلام آباد کے انتظامی، مالی اور قانونی معاملات، سینیٹر محمد یعقوب خان ناصر کے 24 جنوری2019 کو اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے شناختی کارڈ کے حصول میں درپیش رکاوٹیں، سینیٹر عثمان خان کاکٹر کے7 مارچ 2019 اٹھائے گئے
عوامی اہمیت کے معاملہ برائے افضال کوہستانی کے قتل، سینیٹر حاجی مومن خان آفریدی کے عوامی اہمیت کے معاملہ کے علاوہ سینیٹر لیفٹینٹ جنرل عبدالقیوم کے 26 اپریل2019 کو اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے پاکستان میں قائم امریکی سفارتخانے میں فائرنگ رینج تعمیر کرنے کے معاملہ کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت اور شہدا کی مغفرت کی دعاکی گئی۔ سینیٹ قائمہ کمیٹی داخلہ نے
بلوچستان میں دہشتگرد کارروائیوں میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ تین دنوں میں بلوچستان میں دہشتگردی کے دو حملے ہوئے جس میں متعدد افراد شہید ہوئے۔انہوں نے کہا کہ حکومت اس نئی لہر کو نظرانداز نہ کرے اور نیشنل ایکشن پلان کا از سرِنو جائزہ لیا جائے گا جس میں چاروں صوبائی آئی جیز، ہوم سیکرٹریز اور دیگر متعلقہ اداروں سے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد پر بریفنگ حاصل کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ دشمن قوتیں بلوچستان میں دھشتگردی کے
ذریعے پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ دشمن اپنی مذموم کوششوں میں ناکام ہوگا، شہداء کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ سینیٹررحمان ملک نے کہا کہ سی پیک منصوبے کو ناکام کرنے کیلئے دشمن اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ سی پیک کو کسی صورت بھی ناکام نہیں ہونے دیا جائے گا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پاکستانی لڑکیوں کی چینی باشندوں سے شادیوں کے معاملے کو بھی چین کے سفارتخانے نے اٹھایا تھا۔انہوں نے کہا کہ چین کا کوئی عیسائی باشندہ پاکستان آکر شادی نہیں کر سکتا
جب تک کہ چین کے پادری سے سرٹیفکیٹ حاصل نہ کر رکھا ہو۔ ایف آئی اے سے اس معاملے پر تفصیلی بریفنگ حاصل کی جائے گی۔ چیئرمین کمیٹی نے پاکستانی میڈیا سے سفارش کی کہ یہ حساس نوعیت کا معاملہ ہے چین کے حوالے سے خبروں میں خیال رکھا جائے اور دشمن کی سازش کو مل کر ناکام کریں۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے ملک کی تمام سیاسی جماعتیں مسئلے کے حل کی خواہاں ہیں اور متاثرین کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ہزاروں لاپتہ افراد میں سے
صرف 346 رہ گئے ہیں۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ قائمہ کمیٹی داخلہ کو لاپتہ افراد پر گہری تشویش ہے اور غم زدہ خاندان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔انہوں نے کہا کہ گوادر سانحہ کے بعد کہا گیا کہ حمل خان نامی لاپتہ فرد بھی حملہ آوروں میں موجودتھا تو بعد میں معلوم ہوا کہ غلط خبر تھی حکومت نے اس کی تردید بھی نہیں کی۔حکومت کو تردید کرنی چاہیے تھی کہ یہ وہ حمل خان نہیں جس کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں موجود ہے۔سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ میں نے بطور
وزیر داخلہ لاپتہ افراد کمیشن بنایا تھا جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں لاپتہ افراد بازیاب ہوئے۔ قائمہ کمیٹی نے گوادر پی سی ہوٹل میں دہشت گردی کے واقعہ اور بلوچستان کی اہم عمارتوں کی سیکورٹی کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کی رپورٹ وزارت داخلہ سے طلب کر لی۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سپیشل سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس کے بعد سی ڈی اے اور ایم سی اے کے ساتھ مل کر ایک سمری تیار کی تھی۔ ایم سی آئی اور سی ڈی اے میں کو اختلاف نہیں ہے۔
ایک سمری بنا کر کابینہ کو معاملہ بھیجا گیا تو جواب ملا کے وزیر نئے آگئے ہیں اور سمری دوبارہ بھیجی جائے جو بھیج دی ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزارت کی ذمہ داری ہے کہ ان تمام معاملات کو حل کر کے۔ قائمہ کمیٹی ذیلی کمیٹی کی رپورٹ کو اختیار کرتی ہے اور 15 دن کا وزارت کو ٹائم دیتی ہے کہ معاملات کو حل کریں۔ میئر اسلام آباد شیخ انصر عزیز نے کہا کہ قوانین کے مطابق سی ڈی اے کے تمام ملازمین کے حقوق محفوظ ہیں۔کوئی کام ایسا نہیں ہو رہا جو قوانین کے خلاف ہو۔
سینیٹر محمد یعقوب خان ناصر کے عوامی اہمیت کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر محمد یعقوب خان ناصر نے کہا کہ کچھ لوگوں کے شناختی کارڈبنوانے میں مسائل آر ہے تھے وہ فہرست گزشتہ اجلاس میں نادرا حکام کو فراہم کی تھی ان کے مسائل حل کر لیے گئے ہیں وہ مطمئن ہیں۔ چیئرمین نادار عثمان مبین نے کہا کہ نادرا سینٹرز میں روزانہ 2 لاکھ سے زائد لوگ شناختی کارڈ کے حصول کے لیے آتے ہیں۔سینٹر روزانہ 68 ہزار شہریوں کو قومی شناختی کارڈ جاری کرتا ہے۔
لوگوں کو مختلف شکایات بھی ہوتی ہیں نادرا سینٹرز کو روزانہ 200 شکایات موصول ہوتی ہیں۔نامناسب رویے پر 32 لوگوں کو سزا دی گئی ہے۔ کال سینٹر سے اڑھائی سو تک شکایات آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نادرا کے پاس جدید نظام کے تحت شکایات درج کرنے کا سسٹم ہے اوروزیر اعظم شکایات سیل سے ابھی تک 8 ہزار شکایات موصول ہوئیں ہیں۔ڈی جی اپریشن نادرا نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ وزیراعظم نے شکایات کے ازالے کیلئے 15 دن کا وقت مقرر کیا ہے اورنادرا نے معاملے کو نمٹانے کے لئے
ایک دن کا وقت مقرر کیا ہے۔سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ پاکستان میں جتنی آسانی سے شہریت ملتی ہے دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ ڈی جی نادرا نے کہا کہ پیسوں کی خاطر لوگ افغان باشندوں کو اپنے خاندان میں شامل کر لیتے تھے۔نادرا نے خاندان کے ساتھ اندراج کا نظام تبدیل کیا ہے۔شناختی کارڈ کے حصول کے لیے آنے والے کا انٹرویو کیا جاتا ہے۔سوالوں کے دوران اکثر کیسز میں جعلی اندراج کرانے والے پکڑے جاتے ہیں۔سینیٹر چوہدری تنویر خان نے کہا کہ نادرا اچھا کام کر رہا ہے مگر اس کی فیسیں بھی بہت زیادہ ہیں اور عملے کے رویے کے خلاف لوگوں کی بے شمار شکایات دیکھنے میں آئی ہیں۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ ہدایت کی کہ بیرون ممالک قائم پاکستانی سفارتخانوں اور مشنز میں شکایت سیل قائم کیے جائیں۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ چیف کمشنر اسلام آباد اور آئی جی پولیس اسلام آباد سے امریکی فائر رینج پر بریفنگ مانگی تھی۔میں نے بحیثیت چیئر مین قائمہ کمیٹی برائے داخلہ امریکی سفارتخانہ کے فائر رینج بنانے کے حوالے سے چلنے والی خبر پر سخت نوٹس لیا تھا۔ کسی بھی ایمبسی کا اسلحہ ٹریننگ سنٹر اور فائررینج بنانا ایک نہایت حساس معاملہ ہے۔ پولیس اور وزارت داخلہ نے ابھی تک امریکی فائرنگ رینج پر تحریری وضاحت نہیں دی ہے۔ پولیس نے بتایا کہ فائر رینج امریکی ایمبسی میں نہیں پولیس ٹریننگ سنٹر میں بنائی ہے۔انہوں نے کہا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس نے کس قانون کے تحت امریکی ایمبسی کیساتھ ایم او یو دستخط کیا ہے؟۔ پولیس یا کوئی بھی ادارہ کسی بھی ایمبسی کیساتھ کوئی ایم او یو دستخط نہیں کر سکتا ہے۔پولیس بتائے کہ امریکی فائر رینج بنانے کیلئے اجازت نامہ کس سے لیا تھا؟۔کسی بھی ملک کو پاکستان کے قوانین کے منافی کسی بھی کام یا چیز کی اجازت نہیں دینگے۔ سپیشل سیکرٹری داخلہ نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ جب معاملہ کمیٹی میں اٹھایا گیا تو وزارت داخلہ نے معاملے کا جائزہ لیا۔ فائرنگ رینج کے معاملے کو واپس لے لیا گیا ہے اب وہاں کوئی فائرنگ رینج نہیں بن رہا۔