برلن(این این آئی)جرمنی میں اسلامی اداروں کے غیرملکی عطیات پر انحصار کم کرنے کے لیے مسجد ٹیکس لگانے پر غور کیا جارہا ہے اور ملک کی بیشتر ریاستوں نے اس ٹیکس کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق وفاقی حکومت نے پارلیمان میں ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ یہ (ٹیکس) ایک ممکنہ راستہ ہے،
یہ ٹیکس بھی جرمنی کے عیسائیوں پر عاید کردہ چرچ ٹیکس کے مشابہ ہوگا اور سولہ ریاستوں میں سے بیشتر نے اصولی طور پر اس کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔جرمنی میں مساجد کے لیے غیرملکی رقوم اور عطیات کے حوالے سے خاصی تشویش پائی جاتی ہے اور انھیں ملک کی قریباً پچاس لاکھ مسلم آبادی پر ا ثر انداز ہونے کا ایک ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔جرمنی میں زیادہ تر ترک اور عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکینِ وطن آباد ہیں۔جرمنی میں قریباً 900 مساجد ترکی کی اسلامی یونین برائے مذہبی ادارہ کے زیر انتظام ہیں۔ یہ ادارہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومت کے تحت کام کرتا ہے۔ان مساجد کے ائمہ کو ترک ریاست تن خواہیں ادا کرتی ہے لیکن اس اسلامی یونین کے بعض ارکان کے بارے میں یہ شْبہ ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ جرمنی میں مقیم ترک حکومت کے مخالفین کی جاسوسی کی سرگرمیوں میں ملوّث ہیں۔ جرمنی میں اسلامی اداروں کے غیرملکی عطیات پر انحصار کم کرنے کے لیے مسجد ٹیکس لگانے پر غور کیا جارہا ہے اور ملک کی بیشتر ریاستوں نے اس ٹیکس کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق وفاقی حکومت نے پارلیمان میں ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ یہ (ٹیکس) ایک ممکنہ راستہ ہے، یہ ٹیکس بھی جرمنی کے عیسائیوں پر عاید کردہ چرچ ٹیکس کے مشابہ ہوگا اور سولہ ریاستوں میں سے بیشتر نے اصولی طور پر اس کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔