ہفتہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

طالبان سے مذاکرات کی مخالفت افغان مشیر قومی سلامتی کو مہنگی پڑ گئی ،محکمہ خارجہ طلبی ، امریکی ہم منصب کا ملاقات سے انکار

datetime 16  مارچ‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

واشنگٹن(اے این این ) افغانستان میں قیامِ امن کے لیے امریکی حکومت کے طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات پر افغان حکومت اور واشنگٹن کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ایسا اس وقت ہوا جب ایک انتہائی اہم افغان حکومتی عہدیدار اور افغان مشیر قومی سلامتی نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے پر امریکی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تو جواباً امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اپنی ناراضی کا اظہار کرنے کے لیے انہیں طلب کرلیا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان رابرٹ پلاڈینو نے امریکی عہدیدار کی افغان حکومتی نمائندے سے ملاقات کے بعد بیان جاری کرتے ہوئے ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ امریکی انڈر سیکریٹری برائے امورِ سیاسیات ڈیوڈ ہیل نے افغانستان کے مشیر قومی سلامتی حمد اللہ محب کو امریکا کی جانب سے مفاہمت کی کوششوں پر کیے گئے تبصرے پر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں طلب کیا۔ حمد اللہ محب نے امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا تھا کہ وہ افغان وائسرائے بننا چاہتے ہیں اس لیے افغان حکومت کو کمزور کررہے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکا کے طالبان کے ساتھ مذاکرات سے گیارہ ستمبر کے حملے میں نشانہ بننے والے اور اپنی جانیں قربان کرنے والے امریکی فوجی اہلکاروں کی تذلیل ہوئی۔خیال رہے کہ یہ اپنی نوعیت کا غیر معمولی واقعہ ہے جس میں امریکا کے دورے پر آئے کسی غیر ملکی عہدیدار کو اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اس طرح طلب کیا۔امریکی میڈیا کے مطابق یہ بیان سامنے آنے کے بعد امریکی مشیر قومی سلامتی جان بولٹن نے بھی اپنے افغان ہم منصب سے ملنے سے انکار کردیا۔اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں طلبی کے موقع پر افغان مشیر قومی سلامتی کو یہ بآور کروایا گیا کہ ان کے ریمارکس جنگ زدہ ملک میں قیامِ امن کی کوششوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔

اس سے قبل امریکا اور طالبان وفد کے درمیان مذاکرات کا پانچواں دور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حال ہی میں اختتام پذیر ہوا تھا۔جس میں دونوں فریقین نے مزید اختلافات دور کرنے کے لیے ایک اور ملاقات پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔اس حوالے سے افغان مفاہمتی عمل میں امریکی حکومت کی نمائندگی کرنے والے زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں 4 نکات پر گفتگو مرکوز رہی جس میں انسدادِ دہشت گردی کی یقین دہانی، فوجوں کے انخلا، افغانستان کے اندر مذاکرات اور مکمل جنگ بندی شامل ہے۔اس سلسلے میں ابتدائی 2 نکات پر طالبان کی جانب سے رضامندی کا اظہار کیا گیا لیکن وہ افغان حکومت کے بات چیت سے انکاری ہیں اور مکمل جنگ بندی کے وعدے سے بھی گریزاں ہیں۔

موضوعات:



کالم



جنرل فیض حمید کے کارنامے


ارشد ملک سیشن جج تھے‘ یہ 2018ء میں احتساب عدالت…

عمران خان کی برکت

ہم نیویارک کے ٹائم سکوائر میں گھوم رہے تھے‘ ہمارے…

70برے لوگ

ڈاکٹر اسلم میرے دوست تھے‘ پولٹری کے بزنس سے وابستہ…

ایکسپریس کے بعد(آخری حصہ)

مجھے جون میں دل کی تکلیف ہوئی‘ چیک اپ کرایا تو…

ایکسپریس کے بعد(پہلا حصہ)

یہ سفر 1993ء میں شروع ہوا تھا۔ میں اس زمانے میں…

آئوٹ آف سلیبس

لاہور میں فلموں کے عروج کے زمانے میں ایک سینما…

دنیا کا انوکھا علاج

نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…

بھکاریوں سے جان چھڑائیں

سینیٹرویسنتے سپین کے تاریخی شہر غرناطہ سے تعلق…

سیریس پاکستان

گائوں کے مولوی صاحب نے کسی چور کو مسجد میں پناہ…