اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم عمران خان نے گرفتار بھارتی ائیر فورس کے پائلٹ کو جذبہ خیرسگالی کے طور پر جمعہ کو رہا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ہماری مذاکرات اور امن کی کوششوں کو بھارت کمزوری نہ سمجھے ،پارلیمنٹ اور اپوزیشن کا شکر گزار ہوں، جب بیرونی خطرات کا سامنا ہے پوری قوم متحدہ ہے، بھارت کو کہہ رہا ہوں اس سے آگے نہ لے کر جائیں،پھر پاکستان جواب دینے پر مجبور ہو گا،جو ہتھیار دونوں کے پاس ہیں جنگ کی جانب سوچنا بھی نہیں چاہئے،
ہمیں یقین ہے عالمی برادری اپنا کردار ادا کریگی ، موجودہ صورتحال میں پاکستانی میڈیا کا کر دار قابل تحسین ہے ۔ جمعرات کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن کا شکر گزار ہوں اور خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ ایسے وقت میں جب پاکستان کو بیرونی خطرات ہیں تو ہماری قوم متحد ہے۔انہوں نے کہاکہ 26 جولائی کو جب وزیراعظم نہیں بنا تھا تب ہی بیان دیا تھا کہ اگر بھارت ایک قدم ہماری طرف بڑھائے گا تو ہم دو بڑھائیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ غربت برصغیر میں ہے اور یہ میرا وڑن ہے کہ کبھی بھی کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی جہاں تھوڑے لوگ امیر باقی غریبوں کا سمندر ہوں۔وزیراعظم نے کہا کہ برصغیر کا آگے بڑھنا اس لیے ضروری ہیکہ امن ہو اور جو بھی مسئلے ہوں وہ بات چیت کے ذریعے حل ہوں، 26 جولائی کی پیشکش کے بعد مودی کو خط بھی لکھا جس میں اقوام متحدہ میں وزرائے خارجہ کی ملاقات کی تجویز دی لیکن اس پر جواب اچھا نہیں آیا، ہم نے دیکھا یہ رد عمل بھارت میں الیکشن کی وجہ سے ہے، ہم نے دیکھا کہ بھارت کی الیکشن کمپین میں پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات شامل نہیں، اس سوچا کہ الیکشن کے بعد بات آگے بڑھائیں گے۔عمران خان نے کہا کہ کرتارپور راہداری بات چیت بڑھانے کی ایک کوشش تھی تاکہ بات چیت سے مسئلے حل ہوں اور کشیدگی کم ہو، بدقسمتی سے پھر بھی دیکھا کہ یہ آگے نہیں بڑھیں گے، ہمیں خوف تھا کہ الیکشن سے پہلے کوئی نہ کوئی واقعہ ہوگا
جس کو بھارت میں الیکشن کیلئے استعمال کیا جائے گا اور اتنے میں پلواما کا واقعہ ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ یہ نہیں کہتا کہ پلوامہ واقعے میں بھارت کا اپنا ہاتھ تھا لیکن واقعہ کے آدھے گھنٹے بعد ہی پاکستان پر انگلیاں اٹھنا شروع ہوگئیں، وہ ٹائمنگ کیسی تھی، اس وقت سعودی ولی عہد پاکستان کے دورے پر تھے تو کون سا ملک ہوگا جو حملہ کرکے اتنے اہم موقع کو خود سبوتاڑ کرے، ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ اس سے ہمیں کیا ملتا، اس لیے فوری طور پر بھارت سے کہا کہ ہمیں ٹھوس انٹیلی جنس ثبوت دیں
ہم کارروائی کریں گے۔وزیراعظم نے کہاکہ بدقسمتی سے بھارت کی طرف سے ثبوت کے بجائے ایک جنگی ماحول بڑھتا گیا، شک تھا کہ اس جنگی ماحول میں پاکستان میں کچھ ہوگا اس لیے پیغام دیا کہ اگر آپ جارحیت کریں گے تو ہم اس کا جواب دیں گے کیونکہ کوئی بھی خودمختار ملک اپنے اوپر حملے کی اجازت نہیں دیتا۔عمران خان نے کہا کہ بھارت سے بار بار کہا کہ ٹھوس ثبوت دیں تو آج بھارت نے ڈوزیئر بھیجا ہے اور دو دن پہلے ہم پر جارحیت کی، عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کی،
اگر یہ ڈوزیئر پہلے دیتے تو حملہ نہ ہوتا اور نہ ہم ایکشن لیتے، ہمیں لگا کہ بھارت میں الیکشن کی وجہ سے ان کی مجبوری ہے کہ جنگی ماحول بنایا جائے۔وزیراعظم نے کہا کہ رات ساڑھے تین بجے بھارت کے حملے کا پتا چلا جس کے بعد تینوں مسلح افواج کے سربراہان سے بات چیت ہوئی کہ حملے کے نتیجے میں جانی نقصان کا علم نہیں تھا اس لیے فیصلہ کیا کہ ہم کچھ نہیں کریں گے، اگر جانی نقصان نہیں ہوا ہے اور ہم حملہ کریں گے تو یہ غیر ذمہ داری ہوگی، ہم نے ذمے دار ریاست بن کر کوئی ایکشن نہیں لیا،
اگلے دن صرف یہ اہلیت دکھانے کیلئے ایکشن لیا کہ آپ کریں گے تو ہم بھی کریں گے، ہمارے ایکشن میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تاہم جب ہمارے جہاز واپس آرہے تھے تو بھارتی جہازوں نے پکڑنے کی کوشش کی جس میں دو بھارتی جہاز گرے۔عمران خان نے بتایا کہ ’ اس صورتحال میں بدھ کی شام کو مودی کو کال کرنے کی کوشش کی کیونکہ ہم واضح کرنا چاہتے تھے ہم بڑھاوا نہیں چاہتے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں کوئی خوف یا ڈر ہے، ہماری فوج دہشت گردی کے خلاف لڑی ہے،
یہ ایک تجربہ کار اور مقابلہ کرنے والی فوج ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ سب مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ہے، بھارت کی عوام سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ان کو یہ سوال نہیں کرنا چاہیے کہ کشمیر کے لوگوں پر جو ان چار سالوں میں تشدد ہوا اس حکمت عملی اور ظلم سے کیا کشمیر کے لوگوں کو اپنا کرلیں گے،کشمیریوں پر جتنے ظلم ہورہے ہیں یہ تحریک بڑھتی جارہی ہے، 20 سال پہلے علیحدگی نہ چاہنے والے کشمیری رہنما اب بھارت کی پالیسی کو قبول نہیں کررہے، اب وہ آزادی کے علاوہ کوئی بات سننے کو
تیار نہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کو سوچنا چاہیے کہ اس حکمت عملی سے نتیجہ نہیں آیا، بھارت کے اندر اس وقت ایک بحث کی ضرورت ہے کہ کشمیر پر آگے کیا کرنا ہے، اگر اس طرح چلتا گیا تو ڈر ہے کشمیر میں رد عمل آئیگا اور وہاں دہشت گردی ہوگی، اس کے بعد بھی کیا بھارتی ہم پر انگلی اٹھائیں گے، اسی طرح ہمیں بغیر ثبوت کے ایکشن کا کہا جائیگا۔انہوں نے کہا کہ بھارتیوں کو جانتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ بھارت میں لوگ کشمیر پر اپنی حکومت کی حکمت عملی سے متفق نہیں،
موجودہ حکوت جو جنگجوئی کررہی ہے وہاں کی اکثریت اس سے متفق نہیں، لوگ ڈرتے ہیں، ان کے میڈیا کا اٹیک ہے، کاش ان کیمیڈیا نے وہ دیکھا ہوتا جو ہمارے میڈیا نے پچھلے 12 سال دیکھا، ہمارے 70 ہزار لوگ مرے اور ہزاروں معذور ہوئے، اس ذمہ داری پر پاکستانی میڈیا کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔وزیراعظم نے کہ جنگ میں کوئی نہیں جیتتا، جن ملکوں کے پاس جوہری ہتھیار ہوں وہاں کسی کو جنگ کا سوچنا بھی نہیں چاہیے، مجھے خوف ہے کہ یہاں بھی غلط اندازے نہ لگ جائیں،
دنیا کی تاریخ میں غلط اندازوں سے ملک تباہ ہوئے، جنگ مسئلوں کا حل نہیں، اگر بھارت اب کوئی ایکشن لے گا تو مجبوری ہے ایکشن لینا پڑے گا تو بات پھر کہاں جائے گی؟عمران خان نے کہا کہ پاکستان امن چاہتا ہے، پاکستان آج جہاں کھڑا ہے ہمارا مفاد صرف استحکام ہے تاکہ جو ہمارا اصل کام ہے ہم لوگوں کو غربت سے نکال سکیں، یہ کشیدگی پاکستان اور بھارت دونوں کو فائدہ نہیں دیتی، مودی کو کال کرنے کی کوشش صرف کشیدگی کم کرنے کے لیے کی، باقی دوستوں سے بھی بات کریں گے کہ
وہ اس میں اپنا کردار ادا کریں، ہم کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاہم اس کوشش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے، یہ ہماری کمزوری نہیں ہے، اس میں غلط سگنلز نہیں ملنے چاہئیں۔انہوں نے کہاکہ اگر کسی بھی ملک کو اس اسٹیج پر دھکیلیں گے تو ایک غیرت مند قوم آزادی کیلئے لڑیگی وہ غلامی قبول نہیں کریگی لہٰذا بھارت کو اور مودی کو پیغام دیتا ہوں کسی کو اس جگہ نہ دھکیلیں، مجھے پتا ہے کہ ہماری تیار ہے، مجھے پتا ہے ہماری
فوج کہاں کھڑی ہے۔وزیراعظم نے کہاکہ بھارت کو کہتا ہوں کہ اسے آگے نہ لے کر جائیں پھر آپ جو بھی کریں گے پاکستان جواب دینے پر مجبور ہوگا، جوہری ہتھیار رکھنے والے دو ملکوں کو ایسے سوچنا بھی نہیں چاہیے۔عمران خان نے کہا کہ امید کرتا ہوں کہ عالمی برداری اس صورتحال میں اپنا کردار ادا کرے گی تاکہ اس سے زیادہ مسئلہ آگے نہ بڑھے۔وزیراعظم نے امن اور جذبہ خیر سگالی کے تحت بھارت کے گرفتار پائلٹ کی رہائی کا بھی اعلان کیا۔