لاہور(نیوزڈیسک)عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جیوٹیلی ویژن نیٹ ورک کے مالکان پر بھی الزامات لگاناشروع کردیئے جس کے جواب میں عمران خان اوران کی ذات پر بھی سوالات اٹھائے گئے جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے جیو کا بائیکاٹ کردیا اوراپنے رہنماﺅںکو پروگرامز میں شرکت سے بھی روکدیاگیاتاہم جلسوں میں عمران خان نے جیو کیخلاف اپنی بات جاری رکھی ، کچھ عرصہ قبل دونوں اطراف سے لفاظی جنگ کی شدت میں کمی آئی تو پی ٹی آئی نے جیو کا بائیکاٹ ختم کردیا اور اب خود پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے روزنامہ جنگ میں عدل و انصاف سے متعلق ’ابن خلدون اورآج کاپاکستان‘ کے عنوان سے کالم لکھ دیا۔روزنامہ جنگ میں چھپنے والے اپنے کالم میں عمران خان نے لکھا” ابن خلدون (1332-1406) کی تصنیف ”المقدمہ“ کو عموماً علوم قدیمہ اور تاریخ پر مرتب کی جانے والی اولین کتب میں شمار کیا جاتا ہے اور اسے بشریات ‘ سماجیات ‘ اقتصادیات اور سیاسیات جیسے جدید علوم کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے تا ہم ابن خلدون کی شہرت کی حقیقی وجہ اس کی جانب سے پیش کیا جانے والا طاقت کے دورانی نمونے “Cyclical Patterns of Power” جیسا نظریہ ہےجس کے ذریعے وہ تہذیبو ںکے عروج و زوال میں کارفرما عوامل کے خدوخال بیان کرتا ہے مشہور مغربی مورخ آرنلڈ توائن بی ابن خلدون کی اس تصنیف کو تاریخ میں انسانی عقل و شعور کا بے مثال کارنامہ قرار دیا ہے ابن خلدون کے مطابق عسکری وسائل کا فقدان اور سیاسی اور اقتصادی اختیارات کم یابی جیسے عوامل تہذیبوں کے زوال کے موجب نہیں ہوتے بلکہ نا انصافی ان کی تباہی کی بنیاد ہوا کرتی ہے اور تباہی ایسی اقوام کے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے جو انصاف اخلاقیات اور شفافیت ایسے عالمگیری اصولوں سے دست کش ہو جائیں اور جہاں معاشرے کا طاقتور اور با اختیار طبقہ اجتماعی مفادات کو پس پشت ڈال کر اپنی ذاتی منفعت کو مقصد حیات مقرر کر لے۔ابن خلدون نے ایسے تمام حقوق کا بھی تذکرہ کیا ہے جن کی نگہبانی کا حکم اسلام دیتا ہے اور وہ بر ملا اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہر انسان کو زندگی , عقیدہ , تعلیم , خاندان اور املاک پر مساوی حق حاصل ہے اور ان تمام حقوق کا تحفظ ہر صورت لازم ہے۔ابن خلدون کی نظر میں اسلامی معاشرے کے قیام کا حتمی مقصد بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے ذریعے عدل و انصاف کی مکمل عملداری کا قیام ہے ابن خلدون اپنے تمام تر علوم اور فلسفہ کو بروئے کار لاتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ جتنا کوئی معاشرہ عدل و انصاف سے قریب ہوا اتنا ہی اسے استحکام اور دوام میسر آئے گا۔تاریخ کا مطالعہ بھی یہ حقیقت اجاگر کرتا ہے کہ عدل و انصاف کی بنیادوں پر استوار تہذیبوں نے ہمیشہ عروج و ترقی کی منازل طے کیں اہل روم کی جانب سے تشکیل کردہ قوانین کو عہد جہالت کے رسم رواج پر فوقیت حاصل رہی بعد ازاں ریاست مدینہ کی صورت میں عدل و انصاف کی بنیاد پر انسانی تاریخ کی پہلی فلاحی ریاست کی بنیاد ڈالی گئی اور قانون کی عملداری اور معاشی انصاف ایسے تابناک خواص پر مشتمل معاشرہ استوار کیا گیا۔اسلام کا عالمگیر نظام عدل دنیا بھر میں اس کی انتہائی تیزی سے ترویج کا حقیقی سبب بنا -مثلاً نویں صدی عیسوی کے دوران مسلم اہل فکر و دانش حقوق اطفال پر بحث و مباحثے میں مصروف تھے اور جب عثمانی خلافت کے قدم مشرقی یورپ کی سر زمین پر پڑے تو ہاری اور کسانوں کو ظالمانہ جاگیرداری نظام کے چنگل سے آّزاد کیا گیا -تا ہم جوں ہی عدل و انصاف سے مسلمانوں کی وابستگی میں کمی آئی ان کی تہذیب و تمدن بالکل اسی طرح زوال پذیر ہوئے جیسے ابن خلدون نے نشاندہی کی -تیرہویں صدی عیسوی میں ایک جانب مسلمان مطلق شہنشاہیت کی جانب بڑھ رہے تھے تو دوسری جانب اہل مغرب میگنا کارٹا کے ذریعے اپنے با اختیار طبقے کو قانون کے زیر نگیں کرنے کیلئے کوشاں تھے۔آج مسلمان مجموعی طور پر پاتال تک اتر چکے ہیں اور عالم اسلام میں کوئی بھی ملک اپنے شہریوں کے حقوق کے تحفظ میں کسی بھی مغربی ملک / ریاست کا مقابلہ نہیں کر سکتا آج یورپ میں عوام کو معیاری تعلیم مفت فراہم کی جاتی ہے اور ان ممالک میں بسنے والے غریب باشندوں کو مفت قانونی معاونت اور علاج معالجے کی مکمل سہولیات دی جاتی ہیں جب کہ ضعیف اور معذور شہریوں کی دیکھ بھال کا ذمہ مذکورہ فلاحی ریاستیں بھی خود اٹھاتی ہیں اسکینڈینیواکے ممالک عدل و انصاف کی فراہمی میں نمایاں کردار کے حامل ہیں اور ان ممالک میں جانوروں اور چوپائیوں تک کے حقوق کا مکمل تحفظ کیا جاتا ہے یو ں تو مغربی نظام عدل کا عالم اسلام سے موازنہ انتہائی کربناک ہے کیونکہ ان ممالک میں سے بیشتر پر آمر شہنشاہ یا نام نہاد جمہوری حکمراں اقتدار کے سنگھاسن پر برا جمان ہیں تا ہم نا انصافی پر مبنی معاشروں میں سے پاکستان سے زیادہ درد ناک مثال پیش کرنا ممکن نہیں اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی واحد مملکت کی حیثیت سے ہم پر لازم تھا کہ ہم ریاست مدینہ کی طرح انسانیت اور انصاف کی بنیاد پر اسلامی ریاست کا عملی نمونہ پیش کرتے تاہم اس کے بر عکس ہم تیزی سے تباہی کی جانب نکل چکے ہیں اور جنگل کی طرز پر جس کی لاٹھی اس کی بھینس اور موزوں ترین کی بقا ایسے اصولوں پر عمل پیرا ہیں اور نتیجتاً حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ سفاک مقتدر طبقہ محرومیوں کے شکار عوام کے بنیادی حقوق بھی غصب کر چکا ہے۔وطن عزیز میں شہریوں کے بنیادی حقوق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں بنیادی عقائد پر عمل پیرا ہونے کا حق ہم سے زیادہ مغربی ریاستوں میں محفوظ ہے غیر مسلم پاکستانیوں کی حفاظت تو در کنار ہم مختلف مسلم مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے تحفظ میں بھی یکسر ناکام ہو چکے ہیں اور مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے سے علماءو مفکرین کو یا تو ملک سے باہر دھکیلا جا چکا ہے یا انہیں موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے ملک میں محصولات کا نظام بھی نا انصافی کا منہ بولتا ثبوت ہے جس کے ذریعے محروم اور غریب طبقے پر بالواسطہ محصولات کا بوجھ لاد کر اسے غربت کی دلدل میں مزید دھنسایا جاتا ہے جب کہ اہل ثروت طبقے کو دولت سمیٹنے کے تمام مواقع فراہم کئے جاتے ہیں یہاں کا مقتدر طبقہ غیر قانونی ذرائع کے ذریعے کمائی گئی دولت کو جائیداد اور بنک اکاﺅنٹس کی صورت میں نہ صرف بیرون ملک منتقل کرتا ہے اور محفوط بناتا ہے بلکہ اس پر پردہ پوشی کیلئے بھی تمام وسائل بروئے کار لاتا ہے۔
معیاری تعلیم تک رسائی کا حق صرف ایک مختصر سے با اختیار اور با وسائل طبقے کیلئے محفوظ ہے ملک میں 8 لاکھ بچے انگریزی نظام تعلیم سے مستفید ہوتے ہیں،20لاکھ بچے دینی درس گاہوں کا رخ کرتے ہیں جب کہ 3کروڑ بچے سرکاری مدرسوں میں تعلیم پاتے ہیں۔پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے۔صحت کے شعبے کی داستان بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں اور یہاں بھی با رسوخ طبقے ہی کو دیکھ بھال میسر آتی ہے , معیاری شفاخانوں کا رخ کرنے والوں کو ایسی بیش قیمت ادویات کے استعمال کی ہدایت کی جاتی ہے جن کا استعمال ایک عام شہری کے بس سے باہر ہے ملک میں گندے پانی سے پیدا ہونے والے قابل علاج امراض سے زندگیاں ہارنے والے بچوں کی سالانہ تعداد تقریباً ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
آبادی کا بڑا حصہ انصاف سے یوں محروم ہے کہ وہ وکلاءکے واجبات کا بار اٹھانے کی اہلیت سے محروم ہے چند برس قبل جیل خانہ جات کے ایک سابق آئی جی نے انکشاف کیا کہ بیشتر جیلوں میں قید نصف قیدی معصوم ہیں اور غربت ان کا واحد جرم اور گناہ ہے اس کے ساتھ ہمارا نظام عدل طاقتور اور بارسوخ طبقے کو قانون کے زیر بار لانے میں بھی یکسر ناکام ہے اور اس طبقے کیلئے قتل بیرون ملک غیر قانونی منتقلی لوگوں کی جائیدادیں ہتھیانے اور قومی خزانے پر ڈاکہ زنی سمیت ہر قسم کے جرائم کے باوجود نظام عدل سے صاف بچ نکلنا انتہائی سہل اور آسان ہے ایسے میں متوسط طبقے کے شہریوں کو اپنی جان و مال، عزت اور آبرو کو لا حق بے شمار خطرات کا سامنا ہے جب کہ پولیس کی ایک بڑی تعداد خواص (VIPs) کی حفاظت پر مامور ہے۔ابن خلدون کی عظیم تہذیب کا دائرہ ایسے شہریوں تک محدود ہے کہ معاشرے میں نا انصافی کو بلا چوں چرا ںاور مزاحمت کے قبول کرتے ہیں تقریباً 2000 برس قبل ارسطو نے کہا کہ ایسے شہری جو ناانصافی کے خلاف صف آراءنہیں ہوتے اور بغاوت نہیں کرتے بزدل یا خود غرض ہیں اسلام نا انصافی اور استبداد کے خلاف اجتماعی کاوشوں )جہاد( کا حکم صادر کرتا ہے۔اس امر کا اندازہ کہ ہم نا انصافی کو برداشت کرنے میں کس حد تک جا چکے ہیں مئی 2013 کے انتخابات سے لگایا جا سکتا ہے جب تقریبا تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی کی شکایت کی تا ہم تمام مقتدر طبقے نے ووٹ کی پرچی کی توہین اور شہریوں کے حق رائے دہی پر پڑنے والے ڈاکے جیسے عظیم جرم ٹھنڈے پیٹوں قبول کر لیا انتخابات کے دوران کئے جانے والے اس جرم عظیم کی تحقیقات کیلئے سیاسی مافیا کو عدالتی کمیشن کی تشکیل پر مجبور کرنے کیلئے 126 روزہ دھرنے سمیت کامل دو برس کی انتھک ریاضت اور جدوجہد آزمانا پڑی حقیقت حال تو یہ ہے کہ کسی بھی مغربی ملک میں انتخابی دھوکہ دہی کی تحقیقات محض چند ہفتوں میں نمٹا دی جاتی ہیں۔پاکستان آج حقیقتاً چوراہے پر کھڑا ہے ہم یوں بھی اپنا سفر جاری رکھ سکتے ہیں کہ یہ حکمران طبقہ ملکی وسائل لوٹتا رہے اور بیرون ملک اپنی دولت جمع کرتا رہے جب کہ عوام مہنگائی اور غربت کے بحرو بیکراں میں غرق ہو کر حکمران طبقے کی عیش و عشرت کا سامان کرتے رہیں چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی پروان چڑھتی رہے اور وفاقی ڈھانچے کی کمزوری ایک مرتبہ پھر مشرقی پاکستان /بنگلہ دیش جیسی صورتحال پر منتج ہو دوسری صورت یہ ہے کہ ہم اپنے حقوق کیلئے کھڑے ہونے کا فیصلہ کر لیں اور عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کیلئے جدوجہد کریں جس کیلئے پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا‘‘۔
جیو کے بائیکاٹ کے خاتمے کے بعد عمران خان کا ایک اور اقدام، کالم لکھ ڈالا
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں