لندن (نیوزڈیسک )برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں امریکی سفارت خانے کے ایک اہلکار پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نے سینکڑوں خواتین کو ’سائبر سٹاک‘ کیا اور مطالبات پورے نہ کرنے کی صورت میں ان کی نجی تصاویر پوسٹ کرنے کی دھمکی بھی دی۔مائیکل سی فورڈ 2006 سے برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں۔ انھیں گذشتہ ہفتے اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ امریکی ریاست ایٹلانٹا میں اپنے اہل و عیال سے ملنے گئے تھے۔استغاثہ کے مطابق مائیکل فورڈ خواتین کے اکاو¿نٹس ہیک کرتے تھے تا کہ وہ ان کی جنسی تصاویر وصول کر سکیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ مائیکل فورڈ اب سفارت خانے میں کام نہیں کرتے۔استغاثہ کے مطابق مائیکل فورڈ چوری شدہ تصاویر کی مدد سے متاثرہ خواتین کو دھمکی دیتے تھے اور مطالبہ کرتے تھے کہ وہ دیگر خواتین کی کپڑے اتارتے وقت ویڈیوز بنائیں۔عدالتی دستاویزات کے مطابق انھوں نے ایک متاثرہ عورت سے کہا کہ ’میں چاہتا ہوں کہ تم جِم، کپڑوں کی دکان یا سوئمنگ پول میں سیکسی لڑکیوں کی ویڈیو بناو¿۔ اگر تم نے ایسا کیا تو پھر میں تمہاری زندگی سے غائب ہو جاو¿ں گا۔‘جب متاثرہ لڑکیوں نے ان کی بات نہیں مانی تو مائیکل ایک اور دھمکی والی ای میل بھیجتے تھے جس میں لکھا ہوتا تھا: ’ٹھیک ہے، اب تمھارا وقت پورا ہو گیا ہے۔ میرے پاس جو کچھ بھی ہے میں اسے آن لائن پوسٹ کر رہا ہوں اور میں اسے تمھارے دوستوں کو بھیجوں گا۔ تصویریں، نام، فون نمبر، گھر کے پتے، سب کچھ۔ میں نے تمھیں ایک موقع دیا تھا لیکن تم نے اسے ضائع کر دیا۔‘ٹھیک ہے، اب تمھارا وقت پورا ہو گیا ہے۔ میرے پاس جو کچھ بھی ہے میں اسے آن لائن پوسٹ کر رہا ہوں اور میں اسے تمھارے دوستوں کو بھیجوں گا۔ تصویریں، نام، فون نمبر، گھر کے پتے، سب کچھ۔ میں نے تمھیں ایک موقع دیا تھا لیکن تم نے اسے ضائع کر دیا۔استغاثہ کا کہنا ہے کہ ایک کیس میں مائیکل فورڈ نے ایک لڑکی کے ماں باپ اور اس کے بھائی کو لڑکی کی نجی تصاویر ای میل کر دیں۔35 سالہ مائیکل فورڈ پر الزام ہے کہ وہ سفارت خارنے میں اپنے کمپپیوٹر پر ’phishing‘ کے ذریعے لڑکیوں کے پاس ورڈ ہیک کرتے تھے۔مونا سیڈکی امریکی محکمہ انصاف میں وکیل ہیں۔ انھوں نے ایٹلانٹا جرنل کانسٹی ٹیوشن نامی اخبار کو بتایا کہ ’وہ کالج اور یونیورسٹیوں میں جانے والی لڑکیوں کے علاوہ ماڈل بننے کی خواش مند لڑکیوں کو بھی نشانہ بناتے تھے۔‘استغاثہ نے کہا کہ پاس ورڈ وصول کرنے کے لیے مائیکل فورڈ نے خود کو ایک بارگوگل کمپنی کے ملازم کے طور پر بھی پیش کیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان میری ہارف نے کہا کہ مائیکل فورڈ، جو پہلے ’ایڈمنسٹریٹو سپورٹ ملازم‘ تھے، اب سفارت خانے میں کام نہیں کرتے