منگل‬‮ ، 25 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

ساہیوال سانحہ میں متاثرہ بچوں سے بار بار واقعہ کے بارے میں پوچھنے کے مستقبل میں کتنے بھیانک اثرات سامنے آئیں گے؟ نفسیاتی معالج نے انتباہ کردیا

datetime 21  جنوری‬‮  2019 |
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور( این این آئی) نفسیاتی معالج ارسہ غزل نے کہا ہے کہ ساہیوال سانحہ میں متاثرہ بچوں سے بار بار واقعہ کے بارے میں پوچھنا ان کے ذہنوں پر ایک شدید نقش چھوڑ رہا ہے جو کہ غلط ہے ،لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ یہ واقعہ اور بار بار اس کی یاد دلانا انہیں مستقبل میں بہت سی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کر سکتا ہے۔بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر بار بار ساہیوال واقعہ اور اس میں متاثر ہونے والے بچوں کی ویڈیوز چل رہی ہیں،

بچوں سے سوال کر کے بار بار اسی واقعہ کے اندر لیجایا جا رہا ہے ۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ سے کسی گزرے ہوئے واقعہ کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو آپ اپنے ذہن میں اس اسے یاد کرتے ہیں اوردوہراتے ہیں اور پھر آپ کسی کو اس کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ساہیوال میں بھی بچوں کے ساتھ یہی کیا جا رہا ہے، یہ ان کے ذہنوں پر ایک شدید نقش چھوڑ رہا ہے جو کہ غلط ہے۔انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ لوگ یہ سوچ رہے ہوں کہ ہم ان کی مدد کر رہے ہیں ٹھیک ہے آپ انہیں انصاف دلوانا چاہ رہے ہوں گے لیکن یہ طریق کار بہت غلط ہے۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ قانون موجود ہے کہ آپ بچوں کے سامنے ان کی موجودگی میں اس قسم کی کوئی کارروائی کسی صورت میں نہیں کر سکتے۔نفسیاتی معالج ارسہ غزل کے مطابق اس قسم کے واقعات میں بچے ڈرؤانے خواب، اکیلے پن، کھانے اور سونے کے اوقات کے متاثر ہونے کا شکار ہو سکتے ہیں ان کے سامنے اگر ایسا واقعہ ہو گیا ہے تو آپ فی الحال انہیں ریلیکس ہونے کے لیے چھوڑ دیں،یہ پہلی ترجیح ہونی چاہیے انہیں اس وقت کونسلنگ کی ضرورت ہے۔بچوں کے ذہن کچے ہوتے ہیں اور اِن بچوں کے والدین کی طبعی موت نہیں ہوئی یہ چیز ان پر منفی اثرات چھوڑتی ہے۔آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ یہ واقعہ اور بار بار اس کی یاد دلانا انہیں مستقبل میں بہت سی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کر سکتا ہے۔بطور نفسیاتی معالج ایسے بچوں کا علاج کرنا بھی ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے،

یاداشت کو کھرچ دینا بالکل ختم کرنا خاص طور پر بچوں کے معاملے میں اتنا آسان نہیں ہوتا۔یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے ہمیں اپنے بچپن کی باتیں شاید حال کی کچھ باتوں سے زیادہ اچھی طرح یاد ہوتی ہیں۔بچوں کی یاداشت بہت اچھی اور پکی ہوتی ہے اور ایسی صورتحال کا شکار ہونے کے بعد وہ زیادہ مشکل کا شکار ہو سکتے ہیں ایسا ان کے لیے ڈراؤنے خواب، اکیلے رہنے کو ترجیح دینا یعنی گھلنا ملنا پسند نہ کرنا، کھانے اور سونے کے اوقات متاثر ہونے کی صورت میں ہو سکتا ہے۔صدماتی کیفیت کے شکار بچوں کے علاج کے لیے ان کی شخصیت کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور ان سے 10 سے 12اور کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ سیشنز کیے جاتے ہیں۔

اس کے عمومی طریق کار میں پہلے سیشن میں بچے سے ملاقات کی جاتی ہے اور دوسرے سیشن میں اس سے باضابطہ بات چیت کا آغاز کیا جاتا ہے اگر وہ بات کرنا پسند نہ کرے تو پلے تھراپی)یعنی کھیل کے ذریعے(یا ڈرائنگ تھراپی کے ذریعے اس کی ذہنی صورتحال کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔کس بچے کو کتنا وقت دینا ہے اور کتنے دن بعد دوسرے سیشن کے لیے بلوانا ہے یہ فیصلہ ہر بچے کو دیکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ان کے چہروں کو آپ دیکھیں وہاں معصومیت، خوف آور آنسو ہیں، ان بچوں کو ہم اسی طرح تکلیف سے نکال سکتے ہیں کہ ہم انہیں پہلے تھوڑا وقت دیں۔اس وقت ہر چیز ساتھ ساتھ کیے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو بچوں کو سوائے اذیت کے اور کچھ نہیں دے رہا۔اس میں ہمارے سماجی رویے بھی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بچوں کے رشتہ دار اور اردگرد کے لوگ بھی بار بار ان سے پوچھتے ہیں کہ ہاں بیٹا بتا ؤکیا ہوا ہے جو کہ بہت منفی ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)


ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(دوسرا حصہ)

عمران خان میاں نواز شریف کو لندن نہیں بھجوانا…

جنرل فیض حمید کے کارنامے

ارشد ملک سیشن جج تھے‘ یہ 2018ء میں احتساب عدالت…

عمران خان کی برکت

ہم نیویارک کے ٹائم سکوائر میں گھوم رہے تھے‘ ہمارے…

70برے لوگ

ڈاکٹر اسلم میرے دوست تھے‘ پولٹری کے بزنس سے وابستہ…

ایکسپریس کے بعد(آخری حصہ)

مجھے جون میں دل کی تکلیف ہوئی‘ چیک اپ کرایا تو…

ایکسپریس کے بعد(پہلا حصہ)

یہ سفر 1993ء میں شروع ہوا تھا۔ میں اس زمانے میں…

آئوٹ آف سلیبس

لاہور میں فلموں کے عروج کے زمانے میں ایک سینما…

دنیا کا انوکھا علاج

نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…