فرانس(مانیٹرنگ ڈیسک) آج کل نوجوانوں میں بالوں کو رنگنا بہت عام ہوچکا ہے مگر کبھی کبھار اس کا انجام کافی برا بھی ہوسکتا ہے جیسا فرانس سے تعلق رکھنے والی 19 سالہ طالبہ کے ساتھ ہوا۔ ایسٹیلا نامی طالبہ کو ہیئر کلر میں پائے جانے والے ایک جز paraphenylenediamine سے ہونے والی شدید الرجی کے باعث ہسپتال میں داخل ہونا پڑا جبکہ اس کا چہرہ غبارے کی طرح پھول کر کسی فٹبال جیسا ہوگیا۔
درحقیقت بالوں کو کلر کرانے کے باعث اسٹیلا موت کے منہ میں پہنچ گئی تھی اور جس جز کی وجہ سے یہ حال ہوا وہ لگ بھگ تمام ہیئر کلرز میں موجود ہوتا ہے، جس کے بعد سے اس لڑکی نے ان مصنوعات کے استعمال کے حوالے سے مہم شرع کی ہے۔ اب بھی اس کے چہرے پر الرجی کے آثار موجود ہیں اور وہ کافی حد تک پھولا ہوا ہے۔ اسٹیلا کے مطابق ‘آپ میرے چہرے پر اس کا اثر دیکھ سکتے ہیں’۔ اسٹیلا نے ایک سپرمارکیٹ سے معروف برانڈ کا ہیئر کلر خریدا تھا اور اسے بالوں پر استعمال کیا۔ اس نے بتایا کہ کلر لگانے کے چند گھنٹے بعد ہی خارش شروع ہوگئی مگر اس وقت طالبہ نے زیادہ پروا نہیں کی اور اس کے لیے بازار سے چند کریمیں لے آئی، مگر بدترین صورتحال تو اس کے بعد سامنے آئی۔2 دن بعد جب اس نے آئینے میں خود کو دیکھا تو اسے جو نظر آیا وہ کسی دھچکے سے کم نہیں تھا، اس کا سر پھول چکا تھا اور چہرہ ناقابل شناخت ہوگیا تھا۔ طالبہ نے فرانسیسی سائٹ لی پراسین کو بتایا ‘ میرا سر لائٹ بلٹ جیسا ہوچکا تھا’۔ اسٹیلا نے اس کے بعد ہسپتال کا رخ کیا اور ڈاکٹروں نے دریافت کیا کہ اسے araphenylenediamine کے باعث الرجی ری ایکشن کا سامنا ہوا ہے اور یہ ایسا جز ہے جو کہ 90 فیصد ہیئر کلرز میں پایا جاتا ہے اور الرجی کا خطرہ بڑھانے کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس الرجی کے نتیجے میں طالبہ کے سر کا گول دائرہ 22 سے 24 انچ تک سوج گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے اسٹیلا کو ہسپتال میں داخل کرلیا اور اسے لگا کہ وہ مرنے والی ہے ‘ ہسپتال پہنچنے سے قبل آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ مجھے دم گھونٹنے کی کیسی تکلیف کا سامنا ہوا’۔ طالبہ نے اپنے چہرے کے پھولنے کی تصاویر فیس بک پر اس انتباہ کے ساتھ پوسٹ کیں کہ دیگر اس طرح کی مصنوعات کے استعمال سے گریز کریں ‘ اب میں ٹھیک ہوں، بلکہ اپنے چہرے کی عجیب ساخت پر ہنستی ہوں’۔ اس کا مزید کہنا تھا ‘ مگر میرا لوگوں کے لیے پیغام ہے کہ وہ ایسی مصنوعات کے حوالے سے بہت زیادہ احتیاط کریں کیونکہ نتائج جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں، اور میں چاہتی ہوں کہ ایسی مصنوعات فروخت کرنے والی کمپنیاں وارننگ کو زیادہ واضح کریں’۔