برطانیہ (مانیٹرنگ ڈیسک) سماجی رابطے کی مقبول و معروف ویب سائٹس گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل صارفین کی خفیہ معلومات کے حوالے مختلف تنازعات کی زد میں ہے۔ اب حال ہی میں یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ فیس بک استعمال کرنے والے افراد کے ذاتی پیغامات انٹرنیٹ پر فروخت کے لیے موجود ہیں۔ برطانوی نشتریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کی رپورٹ کے مطابق ہزاروں افراد کی
فیس بک کے ذریعے کی جانے والی خفیہ گفتگو ان کی لاعلمی میں فروخت کی جارہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کم از کم 81 ہزار افرادکے نجی پیغامات آن لائن فروخت کے لیے میسر ہیں جن میں زیادہ تر صارفین کا تعلق امریکا، برطانیہ، روس،یوکرین، اور برازیل سے ہے۔ فیس بک پر صارفین کی معلومات موبائل کمپنیوں کو دینے کا الزام اس کاروبار میں شریک ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کے پاس تقریباً 12 کروڑ اکاؤنٹس کی تفصیلات موجود ہیں جنہیں وہ فروخت کررہے ہیں۔ مذکورہ ہیکرز نے فی اکاؤنٹ تقریباً ڈیڑھ روپے کے عوض معلومات فراہم کرنے کی پیشکش کی ، یہ معاملہ پہلی بار رواں برس ستمبر میں منظر عام پر آیا تھا جب ایک شخص نے ’ایف بی سیلر‘ کے نام سے ایک انگریزی فورم پر پوسٹ کی۔ پوسٹ میں اس کا کہنا تھا کہ ’ہم فیس بک استعمال کرنے والے افراد کی ذاتی معلومات فروخت کرتے ہیں اور ہمارے پاس 12 کروڑ اکاؤنٹس کا ڈیٹا ہے۔ فیس بک پر کتنی ایپس کو آپ کے ڈیٹا تک رسائی حاصل ہے؟ مذکورہ دعوے پر جب ایک سائبر سیکورٹی کمپنی نے اس کا جائزہ لیا تو یہ انکشاف سامنے آیا کہ 81 ہزار سے زائد لوگوں کے نجی پیغامات نمونے کے طور پر آن لائن پوسٹ کیے گئے تھے۔ اس کے ساتھ مزید ایک لاکھ 76 ہزار اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی دستیاب تھیں جس میں ان کے ای میل ایڈریس، فون نمبرز بھی شامل تھے، جو ہوسکتا ہے ان صارفین کی ہوں جنہوں نے اس معلومات کو پوشیدہ نہ رکھا ہو۔
بعد ازاں بی بی سی نے ان 81 ہزار میں سے 5 لوگوں سے رابطہ کیا جن کے ذاتی پیغامات آن لائن پوسٹ کیے گئے تھے جنہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ پیغامات انہی کے بھبیجے ہوئے تھے۔ صارفین کی پرائیویسی نہ رکھنے پرواٹس ایپ بانی نے فیس بک چھوڑ دیا ان پیغامات میں حالیہ بھیجی گئی تصاویر، ایک کنسرٹ کے بارے میں ہونے والی گفتگو اور ایک صارف کی اپنے داماد کے حوالے
سے کی گئی شکاتیں شامل تھیں۔ اس ضمن میں فیس بک کا کہنا ہے کہ صارفین کی سیکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا ان کا کہنا تھا کہ زیادہ امکانات اس بات کے ہیں کہ یہ ڈیٹا براؤزر میں پائے جانے والے ’مالیشئس ایکسٹینشنز‘ کی مدد سے چرایا گیا ہو۔ فیس بک انتظامیہ کا کہنا تھا کہ وہ مزید اکاؤنٹس کو متاثر ہونے سے روکنے کے لیے ضروری اقدامات کررہے ہیں ۔