واشنگٹن (این این آئی)امریکی عدالت نے برطانوی امام کے خلاف ‘دہشت گردوں’ کی مبینہ مدد کے الزام میں فیصلہ محفوظ کرلیا ۔میڈیا رپورٹ کے مطابق سرکٹ کورٹ آف اپیل نے واضح کیا کہ 60 سالہ مصطفی کمال مصطفی کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں۔واضح رہے کہ مصطفی کمال مصطفی پر جرم ثابت ہو گیا تو انہیں عمر قید ہو سکتی ہے۔مصطفی کمال مصطفی کے وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل دونوں ہاتھوں سے محروم ہیں انہیں جیل میں بہتر ماحول فراہم کیا جائے۔
ان پر 2014 میں الزام لگا تھا کہ وہ یمن میں اغواکاروں سے سیٹلائٹ فون کے ذریعے رابطے میں تھے جس میں 4 سیاحوں کو قتل کردیا گیا تھا۔مصطفی کمال مصطفی پر امریکی ساحلی شہر اوریگون میں القاعدہ کے لیے ٹریننگ کیمپ کھولنے اور نوجوانوں کو ٹریننگ دینے کے لیے افغانستان بھیجنے کا بھی الزام لگا۔دوسری جانب سیکنڈ سرکٹ کورٹ نے ٹرائل جج کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کو مسترد کرنے سے انکار کردیاتین رکنی جج پر مشتمل بینچ نے ریمارکس دیئے کہ مصطفی کمال مصطفی کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ مذہبی اشتعال انگیزی پر مشتمل ہے اور جس میں غیر مسلموں کو اغوا کرنے کی ترغیب دی، اسامہ بن لادن کی تعریف اور امریکی شہریوں اور املاک پر القاعدہ کے حملوں کی حمایت کی گئی۔اس حوالے سے کہا گیا کہ مصطفی کمال مصطفی کے خلاف دوسرا ثبوت دہشت گردی پر مبنی مواد اور لندن میں ان کی رہائش گاہ سے اسلحہ کی برآمدگی ہے جو اس بات کی واضح علامت ہے کہ وہ دہشت گردی اور تشدد کے حق میں ہیں۔واضح رہے کہ رواں برس اگست میں برطانیہ میں کم عمر ترین خاتون صفا بولار کو
دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔18 سالہ صفا بولار کو، جنہوں نے اپنی والدہ اور بڑی بہن کے ساتھ مل کر برطانیہ میں دہشت گرد تنظیم داعش سے وابستہ خواتین کا پہلا سیل قائم کیا تھا، کم از کم 13 سال جیل میں گزارنے ہوں گے۔صفا بولار کو اگست 2016 میں برطانوی انتظامیہ نے داعش کے جنگجو سے شادی کی خواہش میں شام جانے سے روکا تھا، جس کے بعد انہوں نے لندن میں دہشت گرد حملوں کا منصوبہ بنایا تھا۔