نئی دہلی(این این آئی)بھارت میں ہمالیہ کی پہاڑی ڈھلوانوں پر کاشت کی جانے والی چائے دنیا کی مہنگی ترین چائے بن گئی،بھارت میں ہمالیہ کی پہاڑی ڈھلوانوں پر کاشت کی جانے والی چائے کے دنیا کے پہلے بائیوڈائنیمک فارم کی کہانی بتائی ہے جہاں صرف چاندنی راتوں میں چائے کی پتیاں چنی جاتی ہیں اوراس کی قیمت لگ بھگ 18ہزار روپے فی کلو گرام ہے ،بھارتی ہمالیہ میں
سطح سمندر سے 2200 میٹربلندی پر واقع ڈھلوانوں اور دنیا کے تیسری بلند ترین پہاڑ کی خنگچیندزوگا کے برف پوش چوٹیوں میں گھری دارجیلنگ کی یہ وادیاں انتہائی دلکش منظر پیش کرتی ہیں۔جنگلی ہاتھی اور ٹائیگر وادی میں گھومتے ہیں اور پہاڑی ڈھلوانوں میں بودھوں کی خانقاہیں لٹکتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں، لیکن دارجیلنگ کی شناخت یہاں کاشت ہونے والی زمرد کے رنگ جیسی سبز چائے ہے جسے ’چائے کی شیمپین‘ کہا جاتا ہے، اور یہ بین الاقوامی شہرت کی حامل ہے۔مکرائبری فارم کا قیام سنہ 1859 میں عمل میں لایا گیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ یہ دارجیلنگ کا قدیم ترین اور چائے کی کاشت کا دنیا کا پہلا بائیوڈائنیمک فارم ہے۔دیگر فارموں کے برعکس یہاں کاشتکاری کا انحصار زمین، مٹی اور پودوں پر ہے، اور پھر مکرائبری آسمان کی طرف دیکھتا ہے۔ اور ایک آفاقی کیلنڈر کے حساب سے ان کے پتوں کی چنائی مارچ اور اکتوبر کے درمیان ہوتی ہے۔ہر کاشت سے پہلے سینکڑوں کی تعداد میں مکرائبری کسان مغربی بنگال کے لباس میں فارم کی ڈھلوانوں پر غروب آفتاب کے وقت جمع ہوتے ہیں۔ایک شخص ہاتھ سے ڈرم بجاتا ہے، خواتین رقص کرتی ہیں اور چاند کی روشنی میں اچھی قسمت اور تحفظ کے لیے ویدک مالائیں گاتی ہیں۔ دیگر افراد جانوروں کی چربی سے روشن کی گئی مشعلیں جلاتے ہیں، اس کا مقصد نہ صرف چننے والوں کے لیے روشنی کرنا بلکہ جنگلی تیندوؤں کو بھی دور بھگانے میں مدد کرنا ہے۔رات آٹھ بجے جب چاند پوری طرح روشن ہوتا ہے، تقریباً 80 سے 100 خصوصی طور پر تربیت یافتہ پتیاں چننے والے پہاڑیوں کا رخ کرتے ہیں اور ہر پودے سے دو پتے اور ایک کلی کو چنتے ہیں اور اپنے سر کے ساتھ بندھی ہوئی ایک بڑی سے ٹوکری میں ڈالتے ہیں۔