اسلام آباد(آئی این پی) متحدہ مجلس عمل کے زیر اہتمام قومی مجلس مشاورت نے مدارس کے بیس نکات پورے کرنے کے لئے حکومت کو ایک ماہ کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا ہے کہ قانون توہین رسالت سمیت تمام اسلامی قوانین کی حفاظت کی جائے گی ۔ مدارس حکومت کی میٹھی میٹھی باتوں میں نہ آئیں حکومت سے مذاکرات کرنے سے انکار کردیں ،مقبوضہ کشمیر کے انتخابات مسترد،
استصواب رائے کا حق دیا جائے بھارتی دھمکیوں کو یکسر مسترد کرتے ہیں، روس کے ساتھ چار سو میزائل خریدنے کے معاہدے کو بھی مسترد کرتے ہیں کشمیری عوام کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انکی مکمل حمایت کرتے ہیں انتخابی دھاندلیوں سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی بجائے کمیشن بنایا جائے ٹی او آرز طے کئے جائیںتفصیلات کے مطابق متحدہ مجلس عمل کے کے زیر اہتمام قومی مشاورتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے جمیعت علامئے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ کچھ چیزیں بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت ہوتی ہیں انگریز نے سکول سرکار کے تابع بنائے نجی سطح پر مدارس بنے داڑھی پگڑی والوں دہشتگرد بناکر پیش کیا جارہا ہے تقسیم ہند کے بارے میں ہمارے ریاستی اداروں نے انگریز کی پالیسی برقرار رکھی ہمارے ریاستی اداروں نے تعلیمی تقسیم کو برقرار رکھا ایجنڈا قومی دھارا نہیں مدرسہ کو پہلے دہشتگرد پھر بند کرنا ہیانہوں نے کہاکہ پرویزمشرف پی پی پی ن لیگ کے بعد اب موجودہ حکومت مدارس کے حوالے سے ایک ہی پالیسی پر عمل پیرا ہیں حکومت وقتی طورپر میٹھی میٹھی باتیں کرے گی مگر یہ سب وقتی ہوگا میں نے اتحاد تنظیمات کو روکا تھا کہ اس کانفرنس سے پہلے وزیر اعظم سے نہ ملیں علما کسی خوش فہمی میں نہ رہیں ورنہ مارے جائیں گے ملک سیکولر بنایا جارہا ہے اس وقت آئین نشانے پر ہے ہم اس وقت اسلامی نہیں
لبرل پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں اسلام سے متعلق قوانین ختم کئے بغیر غیر موثر کئے جارہے ہیں۔اس وقت قانون ختم نبوت میں تبدیلی بین الااقومی ایجنڈہ ہے ملک کو سیکولر بنایا جارہاہے ،اسلامی پاکستان کی جگہ لبرل پاکستان بنایا جا رہے قومی اقتصادی کونسل میں عاطف میاں کے نکالے جانے کے بعد دو ممبران نے استعفی دیا موجودہ حکومت کے بعد قادیانی نیٹ ورک کیسے متحرک ہوگیا
چیئرٹی ایکٹ ہر حال میں مسترد کرتے ہیں مسلسل 1994سے مذاکرات سے مدارس کو نقصان ہی ہوا اب مذاکرات بند کردیئے جائیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ میرے پاس ایک جنرل آیا مدارس پر بات کرنا چاہتا تھا میں نے انہیں کہا آپ پر بیرونی دباو نہ ہوتا تو آپ میرے پاس نہ آتے میں نے مجھے یقین دلاو آپ مدارس اور نصاب کے خاتمے کی نیت نہیں رکھتے میرے یہ کہنے پر
جنرل مجھے گھورگھور کر دیکھنے لگا، انہوں نے کہاکہ 1994سے لیکرآج تک حکومتیں مدارس کے ساتھ مذاکرات کے نام پر مذاق کررہی ہیں موجودہ حکومت سے مذاکرات نہ کئے جائیں ۔ ادارے پہلے اعتماد بحال کرئین بعد میں مذاکرات کرئیں ۔ ہم دینی و دنیاوی تعلیم میں فرق کے قائل نہیں ۔ جماعت اسلامی کے امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہاسود کا خاتمہ مدارس اور
قانون توہین رسالت کا تحفظ ہر صورت کیا جائے گا ملک میں یکساں نصاب تعلیم کے سخت حامیہیں ۔ 1973سے لے کر آج تک اردو قومی زبان نہیں بن سکی عربی زبان کو لازمی قرار دیا جائے، مولانا حنیف جالندھری کے سوال کہ جماعت اسلامی کے اتحادی ہوتے ہوئے کے پی کے میں تعلیمی اداروں کی دیواروں پر ہم جنسی پرستی کی تصاویر کیسے بنی سسراج الحق نے تردید کی اور کہا ایسا کوئی
مضمون شامل نصاب نہیں تھا۔ جماعت اسلامی کا تحریک انصاف سے اتحاد کرنے والے یہ بھی بتائیں اس وقت مولانا فضل الرحمن اور علامہ ساجد میر مسلم لیگ ن کے اتحادی نہیں تھے ۔ ہم موجودہ حکومت کو وقت دینے کے حامی ہیں وہ ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے سود کو ختم کرئیں پارلیمنٹ کی پیشانی پر کلمہ تو آویزاں ہے لیکن نہ پارلیمنٹ اور ملک کے اندر اسلامی نظام نافذ ہے ۔
جب تک معیشت آزاد نہیں ہو گی اس وقت تک نہ قوم آزاد ہو گی نہ سیاست اور نہ ہی نظام تعلیم ۔مولانا عبدالغفور حیدری نے کہاکہ کانفرنس کے دو موضوعات تھے دینی مدارس اور ختم نبوت کے موضوع کو زیر بحث لایا جائے گااس حکومت نے آتے ہی دینی مدارس کے متعلق بیانات دیے مولانا فضل الرحمان کے بیانات کے باعث وہ پسپا ہوئے۔ ختم نبوت کے متعلق بھی ایک اور بل آ رہا ہے بل میں
یہ ہے کہ ختم نبوت کا الزام لگانے والا ثابت نہ کر سکے تو اس کو بھی سزا ہواگر حکومت ایسی کوئی حرکت کرنے لگے گی تو ہم ان کے مقابلے میں کھڑے ہو نا ہوگا۔ ملک کا آئین بھی مولوی کے پارلیمنٹ میں آنے کے بعد بنااس سے قبل عارضی آئین بنتے رہے قادیانیوں کو آئین میں کافر قرار دیا گیاختم نبوت پر تمام مسلمان متفق ہیں حکومت نے مدارس اور ختم نبوت کا مسئلہ چھڑ کر اپنا تابوت بنانا شروع کر دیا
ہے ہم چاہتے ہیں کہ یہ حکومت کرتے رہیں مگر یہ قبرستان کی جانب جا رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ نے کہا ان کے بعد مولانا سمیع الحق تحریک انصاف کی حکومت کے اتحادی بنے تھے ان سے پوچھ کر بتاسکتے ہیں اسلامی تحریک کے علامہ نیاز حسین نقوی نے مولانا فضل الرحمن کو کھری کھری سنادیں اور کہا کہ انہیں اب ہی یہ کانفرنس کیوں یاد آئی وہ بتائیں ایم ایم اے
کو شکست کیوں ہوئی ۔ علامہ اویس نورانی نے کہا کہ پاکستان کسی گولڈ سمتھ نے نہیں بنایا تھا تعلیمی نصاب میں فتنہ قادیانیت کے حوالے سے کوئی آگاہی نہیں ہے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرکے ملک کو خطرناک صورتحال سے دوچار کیا جارہا ہے میڈیا پر سنسر ہے، ملک میں سول مارشل لا لگایا گیاافسوس سے کہتے ہیں سانحہ بلدیہ، سانحہ بارہ مئی، سانحہ ربیع الاول کے کیسز التوا کا شکار ہیں لیکن ججز سیاسی معاملات میں مداخلت کررہے ہیں ممتاز قادری کو پھانسی دیدی گئی اور توہین رسالت کی مرتکب خاتون کا کیس التوا کا شکار ہے یہ کیسا انصاف ہے؟؟مدینہ کی ریاست کی حالت یہ کہ فیصل مسجد میں فلموں کی شوٹنگ ہورہی ہیت قریب سے علامہ عارف واحدی پروفیسر ساجد میر،عبد اللہ گل نے بیھی خطاب کیا۔